رسائی کے لنکس

بوسٹن میراتھون مقدمہ: سماعت کا آغاز، الزامات عائد


عدالتی کارروائی، اسکیچ
عدالتی کارروائی، اسکیچ

استغاثہ نے پریشر ککر بم دھماکوں کو ’دہشت گردوں کا پسندیدہ‘ حربہ قرار دیا؛ کیونکہ، یہ بیشمار لوگوں کو ہلاک و زخمی کرنے کا باعث بن سکتے تھے۔۔۔۔دھماکوں کے بعد، ہوا میں جلتے ہوئے گندھک کی بُو پھیلی، اور ہر طرف لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی

بوسٹن میراتھون ریس بم حملوں کے ملزم، زوخار سارنیف کے خلاف دائر مقدمے کی باقاعدہ سماعت بدھ کے روز شروع ہوئی، جس دوران استغاثہ نے ملزم پہ بم حملوں کا الزام لگایا، جِس کا مقصد ’لوگوں کےچیتھڑے اڑانا اور خونریزی کا منظر برپہ کرنا تھا‘۔

جب ولیم وائنریب پر مشتمل، امریکی استغاثہ ملزم کے خلاف ابتدائی بیان دے رہا تھا، بکھرے ہوئے بالوں والے سارنیف کی نگاہیں سامنے کی طرف جمی رہیں، لیکن وہ جیوری سے آنکھیں ملانے سے کترا رہا تھا۔

استغاثہ نے الزام لگایا کہ سارنیف اور اُن کا بڑا بھائی، تمرلان سنہ 2013 میں بوسٹن کی سالانہ دوڑ کی فنش لائن کے قریب دو دھماکوں کا ذمہ دار ہے، جس میں تین افراد ہلاک جب کہ 264 زخمی ہوئے۔

چند ہی روز بعد، تمرلان سارنیف پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے میں مارا گیا، جب دونوں ملزمان، جو نسلی طور پر چیچن اور کئی برس سے امریکہ میں رہتے رہے تھے، اُنھوں نے بوسٹن میں جاری بڑے پیمانے کی تلاشی کے دوران بچ نکلنے کی کوشش کی۔

الزام ثابت ہونے پر، زوخار سارنیف کو موت کی سزا ہوسکتی ہے۔

مقدمے کی ابتدائی سماعت کے دوران بم حملوں کے شکار ہونے والوں کے 20 سے زائد لواحقین و احباب موجود تھے، جو عدالتی کمرے کی بائیں جانب والے حصے میں تشریف فرما تھے۔

وائنریب نے اِن دو پریشر ککر بم حملوں کو ’دہشت گردوں کا پسندیدہ‘ حربہ قرار دیا، کیونکہ یہ بیشمار لوگوں کو ہلاک و زخمی کرنے کا باعث بن سکتے تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ دھماکوں کے بعد، ہوا میں جلتے ہوئے گندھک کی بُو پھیلی جب کہ ہر طرف لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی۔

استغاثہ کے مطابق، سارنیف کی دانست میں وہ امریکیوں کے خلاف جہاد کر رہا تھا۔

وائنریب نے کہا کہ سارنیف کا ’یہ بھی خیال تھا کہ اِس عمل میں کامیابی پر، اُن کے لیے جنت کا حصول لازم ہوجائے گا۔ اُن کی جانب سے اِن جرائم کے ارتکاب کا یہی محرک تھا‘۔

بوسٹن میں بدھ کے روز بدترین یادیں دہرائی گئیں، جب وفاقی استغاثے نے میراتھوں بم حملے کے ملزم، زوخار سارنیف کے خلاف مقدمے میں باقاعدہ فرد جرم عائد کی۔

اکیس برس کے سارنیف پر دیسی ساختہ پریشر ککر بموں کے دھماکہ کرکے، تین افراد کو ہلاک اور 264 کو زخمی کرنے کا الزام ہے، جن میں کیلیں اور بال بیئرنگ استعمال کیے گئے تھے، جو دوڑ میں موجود ہزاروں شائقین کو لگے۔ یہ دھماکے 15 اپریل 2013ء کو میراتھون ریس کی فنش لائن پر کیے گئے تھے۔

الزامات ثابت ہونے پر، زوخار کو موت کی سزا ہوسکتی ہے، جن میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقصان پہنچانے اور ایک پولیس اہل کار کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔

پیر کے روز استغاثہ نے امریکی ضلعی جج، جارج او ٹولے سے استدعا کی تھی کہ وہ ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کے طبی معائنے کی تصاویر پیش کر سکتے ہیں، جن میں ایک آٹھ سالہ بچے کی تصویر بھی شامل ہے۔

وہ ایف بی آئی کی ایک اخباری کانفرنس کی چند وڈیو کلپس بھی چلا سکتے ہیں جن کی مدد سے سارنیف اور اُن کے بڑے بھائی، تمرلان کی مشتبہ اشخاص کے طور پر شناخت ہوتی ہے، جب ملزمان کی تلاش کے لیے بوسٹن کے ایک بڑے علاقے کو دن بھر کے لیے بند رکھا گیا تھا۔

مقدمے کی کارروائی کے دوران، بوسٹن کی امریکی ضلعی عدالت میں انتہائی سخت سکیورٹی لگائی گئی تھی، جس سماعت کے لیے بتایا جاتا ہے کہ یہ حالیہ تاریخ میں دہشت گردی کے مقدموں میں سب سے زیادہ غور سے سنی اور دیکھی جائے گی۔

دریں اثنا، مدعا علیہان عدالت کے سامنے یہ استدعا کر سکتے ہیں کہ سارنیف اپنے 26 برس کے بڑے بھائی، تمرلان کے زیر اثر تھا، جن کے لیے اُن کا کہنا ہے کہ اس سازش میں وہی مرکزی کردار تھا۔ تمرلان 18 اپریل، 2013ء کو پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے کے دوران ہلاک ہوا۔

اٹارنی، جوڈی کلارک، سزائے موت دیے جانے کے مخالف خیال کیے جاتے ہیں۔ مدعا علیہ کی طرف سے وہ عدالت میں بیان دیں گے۔

فرد جرم عائد کیے جانے کے دوران، سارنیف پہلے ہی تمام کے تمام 30 الزامات میں اقرار جرم سے انکار کر چکا ہے۔ اُنھیں 19 اپریل کو اُس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ بوسٹن کے مضافات میں لنگرانداز ایک کشتی میں چھپا بیٹھا تھا، جس سے کچھ ہی گھنٹے قبل اُن کا بھائی ہلاک ہوا۔ گولی لگنے کے بعد، سارنیف شدید زخمی تھا۔

سارنیف کو بوسٹن سے باہر ایک وفاقی قیدخانے میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، جہاں اُن کا ملاقاتیوں اور باہر کی دنیا سے رابطہ محدود ہے، اور اُن سے صرف اُن کے اہل خانہ اور وکلا کو ملنے کی اجازت ہے۔

XS
SM
MD
LG