صدر براک اوباما نے اپنی صدارت کے آخری مہینوں میں یورپی یونین اور ایشیا پیسفک علاقے کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو اپنی خارجہ پالیسی اور اقتصادی پالیسی کی اولین ترجیح بنایا ہے۔
وہ عالمی تجارتی معاہدوں کے ان کے بقول زبردست فوائد کے مضبوط حامی رہے ہیں اور ناقدین کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ بڑے آزاد تجارتی علاقے بنانے سے ملازمتوں میں کمی، صارفین اور ماحولیات کے تحفظ اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ میں کمی ہوتی ہے۔
مگر گزشتہ جمعرات کو برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے ’بریگزٹ‘ کہلانے والے حیران کن فیصلے کے بعد صدر اوباما کے تجارتی معاہدوں کی کامیابی کی امید بھی ختم ہو سکتی ہے۔
اوباما انتظامیہ کے حکام نے اس خبر پر محتاط رد عمل دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سیکرٹری ایرک شلوٹز نے پیر کو کہا کہ امریکہ کے تجارتی نمائندے مائیکل فورمین اور ان کی ٹیم اس وقت بریگزٹ کے’ٹی ٹی آئی پی‘ یعنی ٹرانس ایٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پارٹنرشپ پر اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے کئی برس تک یورپی کمیشن کے ساتھ اس معاہدے پر کام کیا ہے اور اس پر اہم پیش رفت ہوئی ہے اور اس پر بات چیت اگلے مراحل میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب جبکہ برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑنے کے لیے ووٹ دیا ہے تو امریکہ کو برطانیہ کے ساتھ علیحدہ بات چیت کرنی ہو گی۔
ایرک شلوٹز نے کہا کہ ٹی ٹی آئی پی اب بھی صدر کی ترجیحات میں شامل ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے وقت جب اس کے تین بڑے رکن ممالک میں سے ایک چھوڑ کر جا رہا ہے یورپی یونین کے لیے امریکہ کے ساتھ پیچیدہ تجارتی مذاکرات کو حتمی شکل دینا تقریباً ناممکن ہے۔
ان کا خیال ہے کہ بریگزٹ پہلے ہی یورپی رائے دہندگان میں غیرمقبول ٹی ٹی پی آئی معاہدے کے لیے ایک ڈرامائی دھچکا ہے اور 2017 میں جرمنی میں عام انتخابات اور فرانس میں صدراتی انتخابات کے پیش نظر اس پر پیش رفت کا امکان بہت کم ہے۔
یورپی یونین میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی امریکہ کے اہم ترین تجارتی شراکت دار ہیں لہٰذا امریکہ کو برطانیہ کے ساتھ اپنے ’’خصوصی تعلقات‘‘ کو نئی شکل دینا ہو گی اور ساتھ ہی یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کی تخلیق نو بھی کرنی ہو گی۔
صدر اوباما 45 کروڑ صارفین کے ساتھ ایک متحدہ یورپی یونین میں امریکہ کی رسائی بڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے اور بعد میں ایشیا اور پیسفک میں ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ نامی منصوبے کے تحت ایک بڑا آزاد تجارتی علاقہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ مگر بریگزٹ نے ان کے منصوبے کے پہلے حصے پر عملدرآمد کو روک دیا ہے۔