برطانیہ کی بحریہ نے جبرالٹر کے پانیوں میں ایک ایرانی تیل بردار جہاز پکڑ لیا ہے۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ یہ آئل ٹینکر ایران پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خام تیل شام لیجانا چاہتا تھا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق گریس ون نامی آئل ٹینکر کو جنوبی اسپین کے قریب بحر روم میں برطانیہ کے زیر اثر علاقے میں قبضے میں لیا گیا، خیال رہے کہ اسپین کا جنوبی علاقہ جبرالٹر برطانیہ کے کنٹرول میں ہے۔
ایران نے برطانیہ کے اس اقدام پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے برطانیہ کے سفیر کو طلب کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ ایران کے سفارتی ذرائع کے مطابق برطانیہ کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔
جبرالٹر حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں کہ آئل ٹینکر یورپی یونین کی پابندیوں کی فہرست میں شامل شام کی ایک ریفائنری کو تیل پہنچانا چاہتا تھا۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے برطانیہ کی اس کارروائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک بہت اچھی خبر ہے۔
جان بولٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی تہران اور دمشق کو غیر قانونی تجارت میں ملوث نہیں ہونے دیں گے۔
رائٹرز کو دستیاب معلومات کے مطابق آئل ٹینکر کو ایران میں لوڈ کیا گیا۔ تاہم، آئل ٹینکر کی دستاویزات میں درج ہے کہ تیل عراق کا ہے۔
یورپی ممالک اور برطانیہ نے 2011ء سے شام کو تیل کی ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ تاہم، امریکہ کے برعکس ان ممالک نے خلاف ورزی پر ماضی میں کبھی کوئی آئل ٹینکر قبضے میں نہیں لیا تھا۔
ماہرین کے مطابق یورپی یونین نے پہلی بار ایک سخت قدم اٹھایا ہے، یہ شام، ایران اور امریکہ کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ یورپی ممالک اور برطانیہ پابندیوں کو سنجیدہ لیتے ہیں اور کسی بھی وقت خلاف ورزی پر کارروائی کر سکتے ہیں۔
ایرانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ پکڑا جانے والا آئل ٹینکر اور اس کا عملہ ایرانی ہے۔
امریکہ نے گزشتہ سال ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اس پر دوبارہ پابندی عائد کر دی تھی، جس میں عالمی منڈیوں میں ایران کو خام تیل فروخت کرنے سے روکنا بھی شامل تھا۔
ایران نے بھی جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کی دھمکی دی تھی۔
ایران کا یہ موقف ہے کہ امریکی پابندیاں غیر قانونی ہیں اور دیگر ممالک کو تیل فروخت کرنا اس کا حق ہے۔ ایران نے جوہری معاہدے کے فریق یورپی ممالک اور برطانیہ کو بھی الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ وہ اسے امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچائیں۔
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی میں تاحال یورپی ممالک اور برطانیہ کا کردار غیر جانبدرانہ رہا ہے۔ یہ ممالک فریقین کو افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کا فیصلہ عین وقت پر بدل لیا تھا جب حکام کے مطابق امریکی طیارے ایران کے خلاف کارروائی کے لیے تیار تھے، امریکہ نے اس ممکنہ کارروائی کو ایران کی جانب سے اس کا ڈرون طیارہ گرانے کا ردعمل قرار دیا تھا۔
ایران نے گزشتہ دنوں میں جوہری معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ یورینیم افزودگی بھی شروع کر دی ہے۔