برطانوی بارڈر ایجنسی کے مطابق، اسٹوڈنٹ ویزے کےحصول کےطریقہٴ کار میں تبدیلی کے بعد پاکستان سے برطانیہ آنے کے خواہشمند 40فی صد اسٹوڈنٹس کی ویزا درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔
ادارے کے مطابق، اصل اور مستحق طالب علموں کی حق تلفی کے تدارک کےلیے پاکستان سے برطانوی اسٹوڈنٹ ویزا کے حصول کے طریقہٴ کار میں تبدیلی کی گئی تھی، جِس کے مطابق ماضی کے برعکس صرف اسناد جمع کرانے کی بجائےدرخواست گزار طالب علموں کے لیے ویزا انٹرویو دینا لازم قرار دیا گیا تھا۔
بارڈر سکیورٹی کےاعداد و شمار کےمطابق، ویزے کے طریقہٴ کار میں تبدیلی کے بعد اب تک پاکستان میں 40فی صد اسٹوڈنٹ ویزا کی درخواستوں کو مسترد کیا جا چکا ہے، جِس کےبارے میں برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ دورانِ انٹرویو یہ طالب علم انگریزی کے مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اُتر سکے۔
ویزا کے طریقہٴ کار میں تبدیلی سے قبل پاکستانی طالب علموں کی صرف 20فی صد ویزا درخواستیں مسترد کی گئی تھیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ رواں سال جنوب ایشیائی ممالک سےتقریباً 50000ایسے طالب علم اسٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ آئے ہیں جِن کا مقصد پڑھنا نہیں، بلکہ برطانیہ میں غیر قانونی طور پر کام کرنا ہے۔
اِن طالب علموں کی اکثریت کا تعلق بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بتایا گیا ہے۔
برطانیہ آنے والے ہزاروں پاکستانی طالب علموں کو اُس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب برطانوی بارڈر ایجنسی نے سینکڑوں کالجوں کو بوگس قرار دیتے ہوئے بند کردیا تھا۔
پاکستانی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اپنے دورہٴ برطانیہ میں وزیر داخلہ تریسا مئی سے ایسے طالب علموں کو واپس نہ بھیجنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو بوگس کالج اور یونیورسٹیوں کی وجہ سے اثر انداز ہوئےہیں ، برطانوی حکام اُن کا قصور بتائے۔ اُن کے الفاظ میں، ’ویزا آپ کے سفارت خانے نے دیا۔ اگر تعلیمی ادارے بوگس تھے تو آپ کی ایمبسی کو پتا ہونا چاہیئے تھا۔ لہٰذا، اِس طرح کے معاملے میں رعایت برتتے ہوئے متاثرین کو گریس پریڈ دیا جائے‘۔