برطانیہ میں منگل کو قانون ساز اِس رائے دہی میں حصہ لے رہے ہیں آیا تین افراد کے ’ڈی این اے‘ سے بچوں کی پیدائش کے عمل کی تجویز کی منظوری دے کر، برطانیہ کو دنیا کا اولین ملک بننے کا شرف بخشا جائے۔
متنازع قسم کی اِس ’اِن وِٹرو فرٹلائیزیشن‘ کی مدد سے ماؤں کو لاحق انحطاطی امراض، مثلاً پٹھوں کا ورم، مرگی اور دماغی کمزوری بچوں کو منتقل نہیں ہوں گے۔
عالمی سطح پر، ہر سال تقریباً 6500 بچے لاعلاج ’مائی ٹو کانڈریا‘ ( اندرونی جھَلی میں کثیر تعداد میں تنگ اُبھاروں کی موجودگی) کے امراض میں مبتلہ ہوتے ہیں۔
کلیدی برطانوی طبی حکام، اس تجویز کے حامی ہیں، جِن کا کہنا ہے کہ وہ اِسے ایک مثبت طریقہ خیال کرتے ہیں، جس کی مدد سے ایسی مائیں جو ’مائی ٹو کانڈریا‘ سے متاثر ہیں، اُن کے بچوں کو یہ بیماری منتقل نہیں ہوگی۔
سیلی ڈیویس برطانیہ کے طبی شعبے کی سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے،’خواتین کو یہ موقع دیا جانا چاہیئے کہ وہ تباہ کُن جینیاتی مشکلات سے گزرے بغیر بچوں کو جنم دے سکیں۔‘
ادھر، طبی اخلاقیات سے واسطہ رکھنے والے کچھ ماہرین اس تجویز کی شدید مخالفت کرتے ہیں، جب کہ برطانیہ کی سیکولر ’ہیومن جنیٹکس الرٹ‘ سے وابستہ ڈیوڈ کنگ اس کے حو میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس قانون کی منظوری سے ’مستقبل میں نمونہ ساز، اصلاح ِنسل پر مبنی بچوں کو جنم دینا ممکن ہوگا‘۔
رومن کیتھولک چرچ، جو کسی مصنوعی طریقے سے تولیدی عمل کے طریقہٴکار کی مخالف ہے، اس تجویز کو ہرگز اچھا نہیں سمجھتی۔ اِسی طرح، ’چرچ آف انگلینڈ‘ بھی ایسی ہی سوچ کی مالک ہے، جس نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس طبی تیکنیک سے متعلق ضروری سائنسی مطالعہ ابھی نہیں ہوا، جسے بچوں کی تولید کے معاملے میں استعمال کیا جاسکے۔
اگر ایوانِ زیریں، اور بعدازاں، اِسی ماہ کے اواخر میں ایوانِ بالا اِس تجویز کی منظوری دیتے ہین، تو طبی اہل کاروں کو اس بات کی اجازت مل جائے گی کہ وہ آئندہ کی ماں کے بیضہ زن سے ’ڈی این اے نیوکلیئس‘ حاصل کرکے، عطیہ کردہ بیضے میں پیوستہ کیا جائے، جہاں سے ’نیوکلیئس ڈی این اے‘ لیا گیا تھا۔
نتیجے میں، اس طرح حاصل کردہ جنین میں اپنے ہی والدین کا نیوکلیئس ڈی این اے میسر ہوگا، جب کہ اس میں ’مائی ٹو کانڈریا‘ موجود نہیں ہوگا۔
مائی ٹوکانڈریا کی تبدیلی سے متعلق علاج کی کہیں سے بھی منظوری نہیں ملی۔ گذشتہ برس،’امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ نے برطانیہ میں زیرِ غور اس طریقہٴکار سے متعلق غور و خوض کیا تھا۔ تاہم، ادارے نے فیصلہ کیا کہ انسانوں میں اس کا استعمال قبل از وقت ہوگا۔ لیباریٹری تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے، بندروں کی تولید کے عمل پر کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔