ایک عالمی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ امیگریشن کی حالیہ صورت پر دنیا کے بیشتر ملکوں کے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے جو ان کے ملکوں میں تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد پر فکر مند ہیں۔
تاہم امیگریشن کے مسئلے پر یورپ کے ممالک کے مقابلے میں برطانوی اور امریکی عوام کا رویہ زیادہ مثبت ہے۔
دنیا کے 22 ممالک میں یہ سروے اپسوس آن لائن پینل سسٹم کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں امیگریشن اور پناہ گزینوں کے بحران سے متعلق دنیا بھر کے لوگوں کے رویوں پر نظر ڈالی گئی ہے۔
مارکیٹ ریسرچ کمپنی اپسوس کی طرف سے حال ہی میں عالمگیر سطح پر کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق تقریباً دنیا کا ہر ملک یہ سمجھتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک کی امیگریشن یا مہاجرت میں اضافہ ہوا ہے۔
گلوبل ایڈوائزر امیگریشن 2011ء سے 2016ء کے نتائج کے لیے مجموعی طور پر امریکہ، آسٹریلیا، ارجنٹینا، یلجیئم، جاپان، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی برطانیہ، ہنگری، بھارت، اٹلی، میکسیکو، پولینڈ، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، اسپین، سویڈن ترکی میں 18 سے 64 برس کے 16040 لوگوں کے انٹرویو کئے گئے۔
رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ امیگریشن کے مسئلے پر پچھلے پانچ برسوں کے دوران برطانوی اور امریکی عوام کی آرا میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔
35 فیصد برطانوی شرکا ء نے بتایا کہ وہ امیگریشن کو ملک کے لیے اچھا سمجھتے ہیں جبکہ 2011ء میں اس خیال کے حامی افراد کی تعداد صرف 11 فیصد تھی۔
49 فیصد برطانوی عوام نے خیال ظاہر کیا کہ ان کے ملک میں تارک وطن افراد کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے جبکہ 2011ء میں 71 فیصد عوام امیگریشن کے بارے میں ایسا سوچتی تھی۔
2016ء کے سروے میں 35 فیصد امریکیوں نے کہا کہ تارکین وطن کمیونٹی ملک میں مثبت کردار ادا کرتی ہے اور یہ تعداد 2011ء میں 18 فیصد تھی جبکہ امریکہ میں اس خیال کے حامیوں کی تعداد ترکی اور ہنگری کے شہریوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے جہاں صرف چھ فیصد کا خیال ہے کہ امیگریشن سے ان کے ملک پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اسی طرح سروے میں شریک ایک تہائی امریکی شرکاء نے کہا کہ تارکین وطن ان کے ملک کی معیشت کے لیے اچھے ہیں اور 51 فیصد سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک میں تارکین وطن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اگرچہ امیگریشن کے بارے میں امریکیوں میں تشویش آج بھی بلند ہے تاہم گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں اس میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ یورپی ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں امریکیوں کے احساسات نمایاں طور پر مثبت ہیں مثلاً ترکی، سویڈن اور جرمنی جہاں 90 فیصد سے زیادہ لوگ امیگریشن سے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں۔
تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد پر دنیا کے بیشتر ملکوں میں بے چینی
مطالعاتی جائزہ رپورٹ میں امیگریشن کے بارے میں دنیا کے بائیس ممالک کے لوگوں کے نا صرف رویے معلوم کئے گئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی پر امیگریشن کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
نتائج کے مطابق مجموعی طور پر تقریباً شرکاء کی نصف تعداد کا خیال ہے کہ ان کے ملک میں تارکین وطن بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔
46 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ امیگریشن بہت سے طریقوں سے ملک کو تبدیل کرنے کا باعث بن رہی ہے اور وہ ان تبدیلیوں کو ناپسند کرتے ہیں اور خاص طور پر یورپی ممالک ترکی، اٹلی، روس اور بیلجیئم میں اس طرح کے منفی رویوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تمام ممالک بھر میں اوسطاً 78 فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران امیگریشن میں اضافہ ہوا ہے تاہم ترکی، سویڈن، جرمنی اور جنوبی افریقہ میں ہر دس میں سے نو افراد کا خیال ہے کہ ان کے ملک میں تارکین وطن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
تارکین وطن ان کے ملک کے لیے فائدہ مند ہیں اس خیال سے دنیا بھر میں مجموعی طور پر 20 فیصد لوگ متفق ہیں جبکہ اوسطاً 45 فیصد لوگوں کی رائے کے مطابق مہاجرت یا نقل مکانی کے باعث عام طور پر ان کے ملک پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تاہم اس کے برعکس سعودی عرب میں 48 فیصد اور بھارت میں 45 فیصد لوگوں نے کہا کہ امیگریشن کے ان کے ملک پر مثبت اثرات پڑے ہیں۔
جاپان میں صرف 12 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک میں تارکین وطن زیادہ ہیں جبکہ برازیل کے لوگوں میں امیگریشن کے بارے میں سب سے کم 23 فیصد بے چینی کا امکان تھا۔
رپورٹ کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ خیال عام تھا کہ امیگریشن سے عوامی خدمات پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔
پناہ گزینوں کے بحران سے متعلق دنیا بھر میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ دہشت گرد مہاجرین کے روپ میں ان کے ملک میں داخل ہو سکتے ہیں اسی طرح مہاجرین کے انضمام سے متعلق بھی دنیا کے بیشتر ملکوں کے لوگوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔