برما کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سو چی نے کہا ہے کہ اُن کی رہائی کو ملک کے فوجی حکمرانوں کی پالیسیوں میں نرمی کے ثبوت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیئے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے انٹرویو میں سو چی کا کہنا تھا کہ یہ رہائی صرف اس لیے عمل میں آئی ہے کیوں کہ اُن کی نظر بندی کی مدت ختم ہو گئی تھی اور ”اس میں توسیع کے لیے کوئی فوری ذریعہ موجود نہیں تھا“۔
رہائی کے بعد نوبیل امن انعام یافتہ سو چی نے فوجی جنتا کے رہنما تھان شاوے سے مفاہت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔
سو چی کے خیال میں اُن کی نظر بند غیر قانونی تھی لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اُنھیں فوجی جنتا کے خلاف آواز بلند کرنے کے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے، گو کہ اس کی وجہ سے اُنھوں نے گذشتہ اکیس سالوں میں سے پندرہ سال قید کی کسی نا کسی صورت میں گزارنے ہیں۔
پینسٹھ سالہ سو چی نے ایک طویل نظربندی کے بعد ہفتہ کے روز رنگون میں اپنی رہائش گاہ سے باہر قدم رکھا تھا۔ اُن کی رہائی برما میں بیس برس بعد ہوئے پہلے عام انتخابات کے چند روز بعد ہوئی جس میں فوج کی حمایت یافتہ جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1