انسان حقوق کی ایک معرو ف تنظیم نے کہاہے کہ پرامن اجتماع سے متعلق برما کا نیا قانون بین الاقوامی معیاروں پر پورا نہیں اترتا۔
نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے قانون میں جن حالات کے تحت حکام مظاہروں کا انعقاد روک سکتے ہیں، ان میں مزید کمی کی جانی چاہیے اور خلاف وزری کی صورت میں قید کی سزا ختم کی جانی چاہیے۔
بیان میں زور دیا گیا ہے کہ برما کی حکومت امن و امان سے متعلق قوانین بنانے کے سلسلے میں بین الاقوامی تنظیموں سے بھی صلاح مشورہ کرے۔
برما کی پارلیمنٹ نے پچھلے سال کے آخر میں ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کے ذریعے اصلاحات کے پروگرام کے تحت، جسے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہوئی تھی، مظاہروں پر مکمل پابندی کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ نے کہاہے کہ برما کی حکومت کو محض اس بنا پر اختیارات کے استعمال کی آزادی نہیں دی جانے چاہیے کہ اس سے قبل وہاں زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔
نئے قانون کے تحت مظاہروں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے لیے ضروری قراردیا ہے کہ وہ پانچ روز قبل پولیس کے مقامی سربراہ سے منظوری حاصل کریں۔
قانون میں پولیس سے کہاگیا ہے کہ وہ مظاہرے کے انعقاد سے کم ازکم 48 گھنٹے قبل اپنا جواب دے اور انکار کی صورت میں اس کی وجوہات بھی بتائے۔