برما کے سیاسی قیدیوں کے اہم وکلاء نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برما کی حکومت پر اس وقت تک اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کا نفاذ جاری رکھے جب تک وہ نسلی علاقوں میں قید سمیت ، تمام سیاسی قیدیوں کو رہا نہیں کر دیتی ۔ لیکن دوسری جانب برما میں اقوام متحدہ کے اداروں کاکہنا ہے کہ ملک میں غربت دور کرنے کےپروگراموں کی مدد کےلیے فنڈز کی اجازت کے لیے پابندیوں میں نرمی انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔
سیاسی قیدیوں کے حقوق سے متعلق تنظیم گروپ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو برما کی حکومت پر اقتصادی پابندیاں مکمل طور پر ختم کرنے سے قبل تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے برما کی حکومت پر دباؤ جاری رکھنا چاہیے ۔ تھائی لینڈ میں قائم تنظیم کے سیکرٹری بو گائی نےجو خود ایک سیاسی قیدی رہ چکے ہیں ،بنکاک میں غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے ہمیں برما کی حکومت سے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی چاہیے ۔ دوسری بات یہ کہ ملک بھر میں امن کے حصول میں مدد چاہیے اور تیسری بات یہ کہ ملک میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے شہریوں کو انسانی حقوق کی تنظیمیں قائم کرنے کی اجازت دی جائے ۔ تو اگر ہم اقتصادی پابندیاں اٹھانے پر غور کریں تو ہمیں ان مقاصد کے حصول کے لیے اس طریق کار کی ضرورت ہے ۔
برما کے صدر تھین سین نے اپنی حکومت کی جانب سے سینکڑوں سیاسی قیدیوں کی رہائی ، جمہوریت نواز لیڈر آن ساں سوچی کو سیاست میں واپسی کی اجازت اور نسلی مسلح گروپس کے ساتھ فائر بندی کے مذاکرات کے انعقاد کے بعد اقتصادی پابندیوں کو تیزی سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
لیکن انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے کہا ہے کہ مزید سیاسی قیدی ابھی تک جیلوںمیں ہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سے اب تک 647 سیاسی قیدی رہا کیے گئے ہیں لیکن ابھی تک 700 سے1000 تک دوسرے زیر حراست ہیں۔
برما اس کی تردید کرتا ہے کہ اس نے ابھی تک کسی بھی سیاسی قیدی کو پکڑا ہوا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کوخدشہ ہے کہ مناسب وضاحتوں کے بغیر ، کچھ سیاسی قیدیوں کو معمول کے مجرم سمجھا جا سکتا ہے اور انہیں لمبے عرصے کی سزاؤں کا سامنا ہو سکتا ہے ۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل برما کے ایک محقق بنجمن زواکی کہتے ہیں کہ سیاسی اصلاحات کےباوجود صورتحال بدستور گھمبیر ہے ۔ان کا کہناہے کہ ان لوگوں میں سے بہت سوں کو اول تو کبھی بھی گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے تھا تو یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ ان افراد کو سودے بازی کے لیے استعمال کیا جائے ۔
لیکن بین الاقوامی امدادی ادارے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی بھی توقع کرتے ہیں۔ برما میں یو این ڈی پی کے ریذیڈنٹ نمائندے اشوک نیگام کہتے ہیں کہ ترقیاتی پروگراموں کی مدد کے لیے پابندیوں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہناہے کہ ان کا جلد خاتمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ہم خاص طور پر یو این ڈی پی ابھی تک ایسے محدود مینڈیٹ کے تحت کام کر رہی ہے جو ہمیں ملک میں یو این ڈی پی کے معمول کےپروگرام فی الواقع چلانے سے روکتا ہے ۔
یو این ڈی پی پر سے پابندیاں ختم کرنے کا فیصلے کا انحصار 36 رکن ملکوں کے اس ایکزیکٹیو بورڈ پر ہے جس میں امریکہ کینڈا اور مغربی یورپ کے 12 ملک مثلاًجرمنی اور برطانیہ شامل ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں امریکی کانگریس کے سینیئر راہنماؤں نے تجارتی ، مالیاتی اور اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کے سلسلے میں مشروط حمایت کا اظہار کیاہے۔ اس ہفتے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ ، خبروں کے مطابق لگ بھگ 200 ملین ڈالر کے ایک امدادی پیکیج پر غور کر رہے ہیں۔وزراء تمام سیاسی قیدیوں کی چند مہینوں کے اندر اندر غیر مشروط رہائی کے ساتھ ساتھ اپریل میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات پر زور دے رہے ہیں ، جب آن ساں سوچی پارلیمانی نشست کے لیے مقابلےمیں حصہ لیں گی ۔