"سوئی گیس نے گھروں اور ہوٹلوں کیلئے تو آسانی کردی ہے لیکن اس کی وجہ سے ہمارے چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں"۔ سادہ سے الفاظ میں کیا جانے والا یہ شکوہ ہے 68 سالہ اٹک خان کا جو لکڑیوں کی ٹال جیسے روز بروز متروک ہوتے پیشے سے وابستہ ہیں۔
"ٹال" ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر ایک دور میں برِصغیر پاک و ہند کی وجود پاتی شہری تہذیب نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے زیرِ اثر یہ نام اب گمنامی سے دوچار ہے اور اس کاروبار سے وابستہ افراد اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
لکڑی کی ٹالیں کبھی ہر گھر کی ضرورت ہوا کرتی تھیں۔ شہروں اور قصبوں میں جابجا جلانے کی لکڑی فروخت کرنے والوں کی دکانیں ایک عام منظر تھاتاہم اب ان ٹالوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب کراچی کو نوزائیدہ ملک کے دارالخلافہ کے طور پر منتخب کیا گیا تو آبادی اور وسائل کا قدرتی بہاؤ اس شہر کی طرف ہوگیا۔ اس وقت سوئی گیس دریافت نہیں ہوئی تھی لہذا شہر بھر میں ان لکڑی کی ٹالوں کا کاروبار عروج پہ تھا۔ 70 کی دہائی میں شہر میں سوئی گیس کی آمد کے بعد بھی تیزی سے پھیلتی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن تھا۔ سوٹال کا کاروبار چلتا رہا تاہم شہر کے مختلف علاقوں میں قائم اب یہ ٹالیں گزرے ایام کی یادگار کے طور پر ہی برقرار رہ گئی ہیں۔
کراچی کے قدیمی علاقے وزیر مینشن میں عشروں سے لکڑی کی ٹال چلانے والے اٹک خان کہتے ہیں کہ سوئی گیس آنے کے بعد گھروں میں جلانے والی لکڑی کا استعمال پہلے ہی متروک ہو چکا تھا۔ ان کے مطابق گزشتہ کچھ سالوں میں ان کا کاروبار ہوٹلوں یا شادی بیاہ کے موقع پر کھانا پکانے کیلئے خریدی جانے والی لکڑی کی فروخت تک محدود ہوگیا تھا تاہم سوئی گیس سے چلنے والے تندوروں کی آمد اور شہر میں شادی بیاہ کے کھانے تیار کرنے والے بڑے بڑے پکوان سینٹرز کے قیام سے ان کے کاروبار کا یہ آخری سہارا بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔
سرد و گرم چشیدہ اور زندگی کی کئی بہاریں دیکھنے والے اٹک خان کو اس حقیقت سے انکار تو نہیں کہ سوئی گیس جلانے والی لکڑیوں کے مقابلے میں نہ صرف سستی ہے بلکہ "صارف دوست" بھی ہے، تاہم ان کا سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اگر یہ کاروبار نہ رہا تو وہ کیا کریں گے؟
تاہم شہرِ کراچی میں ٹالوں سے وابستہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کاروبار کو آبائی پیشہ قرار دیتے ہوئے اس سے جڑے رہنے کیلئے پر عزم ہیں چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ ایسے ہی ایک صاحب محمد ہاشم ہیں جو کالا پل کے علاقے میں گزشتہ63 سالوں سے قائم ایک ٹال کے مالک ہیں۔ ہاشم کے دادا قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی آن بسے تھے اور انہوں نے اس ٹال کی داغ بیل ڈالی تھی۔ یہ ٹال انہیں ان کے دادا اور والد کی مشترکہ میراث کے طور پر ملی ہے اور وہ اسے اپنی اولاد تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے کاروبار کے بارے میں ہاشم کا کہنا ہے کہ کراچی میں فروخت ہونے والی زیادہ تر لکڑی اندرونِ سندھ کے علاقوں ہالا، سکرنڈ، نواب شاہ، پڈعیدن، نوشہرو فیروز، خیرپور، سکھر، دادو، شکارپور اور سعید آباد کے علاقوں میں واقع کچے کے جنگلات سے لائی جاتی ہے تاہم سندھ میں تیزی سے معدوم ہوتے جنگلات کے باعث اب لکڑی کی خاصی بڑی تعداد پنجاب کے علاقوں صادق آباد، رحیم یار خان، خان پور، بہاول پور، چشتیاں، فورٹ عباس اور بہاول نگر سے منگوائی جارہی ہے۔
ان کے مطابق کراچی کی ٹالوں پر دستیاب لکڑی کی اقسام میں سرِ فہرست سفیدہ، کیکر، شیشم اور سنبل ہے۔ ہاشم کی ٹال پر جلانے والی لکڑی کے علاوہ فرنیچر اور لانچیں بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی بھی دستیاب ہے۔ ان کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ کیکر کی لکڑی فروخت ہوتی ہے جو جلانے کے ساتھ ساتھ فرنیچر کی تیاری میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق کیکر کی جلانے والی لکڑی 250 روپے فی من جبکہ فرنیچر میں استعمال ہونے والی لکڑی 300 روپے فی من فروخت کی جاتی ہے جبکہ شیشم کی فرنیچر میں استعمال ہونے والی لکڑی کی قیمت 650 روپے فٹ ہے۔
ہاشم کے مطابق کراچی میں لائی جانے والی سفیدے کی لکڑی زیادہ تر لانچیں اور پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل کیلئے تیار کی جانے والی پیٹیاں بنانے میں استعمال ہوتی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کاروبار گزشتہ پندرہ سالوں سے زوال کا شکار ہے۔ کچھ سال پہلے تک ان کی ٹال پر لکڑی کی روزانہ فروخت 40 سے 50 من ہوا کرتی تھی جبکہ آج کل وہ روزانہ بمشکل 8 سے10 من لکڑی ہی فروخت کرپاتے ہیں۔
لانڈھی کے علاقے میں قائم ایک اور ٹال کے مالک ندیم زیادہ تر لکڑی اندرونِ سندھ کے علاقوں ہالا اور شکارپور سے منگواتے ہیں۔ ندیم اپنی ٹال پر کیکر، شیشم، سنبل اور سفیدے کی لکڑی فروخت کرتے ہیں تاہم ان کے مطابق ان کے ہاں سب سے زیادہ کیکر کی لکڑی فروخت ہوتی ہے کیونکہ کیکر آرام سے جلنے کے علاوہ دھواں بھی نہیں چھوڑتی۔
ندیم کا کہنا ہے کہ وہ سنبل کی لکڑی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے منگواتے ہیں تاہم کراچی میں اس کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے مطابق کراچی میں مکانات کی آرائش کیلئے زیادہ تر سفیدے کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ ندیم اپنے کاروبار پر حالیہ کچھ سالوں میں آتے زوال کے باعث پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے کاروبار کا زیادہ تر انحصار ہفتہ وار تعطیلات اور دیگر سرکاری چھٹیوں کے موقع پر فروخت ہونے والی اس لکڑی پر رہ گیا ہے جو پکنک پر جانے والے لوگ کھانا پکانے کیلئے خرید کر ساتھ لے جاتے ہیں۔
تہذیبی اور معاشرتی ترقی کے سبب انسانی رہن سہن میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث بہت سے ایسے پیشے اور کاروبار ختم ہوگئے ہیں جن سے حضرتِ انسان کا معاش صدیوں سے وابستہ تھا۔ سوئی گیس آنے کے بعد ٹال کا کاروبار بھی تاریخ کی اسی بے رحمی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ "ٹال" کا لفظ شہری زندگی میں اجنبی ہوتا جارہا ہے اور آنے والی نسل "ٹال" کے کام کے ساتھ ساتھ شاید اس کے نام سے بھی ناواقف ہوگی۔