خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ضلعی کونسل سے سبکدوش ہونے والے ایک ممبر نے سرکاری فنڈز سے لگ بھگ 90 طالبات میں برقعے تقسیم کیے ہیں۔
ضلع مردان کی تحصیل رستم کے گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول چینہ میں سابق ضلعی کونسلر مظفر شاہ نے بدھ کو 90 طالبات میں ایک ہی رنگ کے کپڑے کے سلوائے گئے برقعے تقسیم کیے۔
مظفر شاہ نے ’وائس آف امریکہ‘ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ برقعے ضلعی کونسل کے غریب طلبہ و طالبات کے لیے مختص کردہ سرکاری فنڈز سے خریدے گئے ہیں۔
ان کے بقول، اسی اسکول کی طالبات کو یونیفارم اور بیگز کی فراہمی پر گزشتہ سال پانچ لاکھ روپے خرچ کیے گئے تھے جب کہ رواں سال اسی رقم سے برقعے خریدے گئے ہیں۔
مظفر شاہ نے کہا کہ یہ فنڈ کونسلر کے مشورے پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، انہوں نے علاقے کی روایات کے پیشِ نظر اس فنڈ سے طالبات کو برقعے فراہم کیے ہیں۔
دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے تعلیم ضیاءاللہ خان بنگش نے کہا ہے کہ طالبات میں برقعے تقسیم کرنا یا برقع پہننا لازمی قرار دینا کسی بھی طور پر حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔
ان کے بقول، متعلقہ کونسلر نے یہ کام از خود اور بغیر اجازت کیا ہے۔
ضیاءاللہ خان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ برقعوں کی تقسیم سابق کونسلر کا ذاتی فعل ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے محکمہ تعلیم کے ضلعی افسر سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ کونسلر نے کسی بھی انتظامی افسر کو مطلع کیے بغیر خود برقعے لاکر اسکول کی بعض طالبات کو پہنائے اور بعد میں تصاویر بنوا کر چلے گئے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی حزبِ اختلاف میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نگہت اورکزئی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی کوئی پختہ سوچ نہیں۔ وہ پہلے فیصلے کرتے ہیں اور بعد میں ان ہی فیصلوں کو واپس لے لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روز بدلنے والے فیصلوں اور اقدامات سے عام لوگوں کے ساتھ سرکاری محکموں کے افسران اور ملازمین بھی پریشان ہیں۔
خواتین کے حقوق کے تحفّظ کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن شاہدہ شاہ نے کہا کہ حکومتی قوانین کے مطابق تمام اسکولوں کے طلبہ کے لیے یونیفارم سے متعلق پالیسی بالکل واضح ہے۔
ان کے بقول، مردان کے ایک اسکول کی طالبات میں برقعے تقسیم کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ میں خیبر پختونخوا میں طالبات کے برقعوں کا معاملہ زیرِ بحث آیا تھا جب ہری پور میں ضلعی تعلیمی افسر نے اسکولوں کی طالبات کو پردے میں آنے کے لیے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا۔
بعد ازاں، مشیرِ تعلیم کی ہدایت پر اس اعلامیے کو پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ لیکن 16ستمبر کو وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا۔