واشنگٹن —
کانگریس مین روپرس برگر پاکستان کے کئی دورے کرچکے ہیں اور انہیں اس ملک کی ترقی میں گہری دلچسپی ہے۔
وہ کہتے کہ، ’میں نے یہ جاننے کے لیے پاکستان کے مسائل کو سمجھا ہے، اس کے بجٹ کا مطالعہ کیا تو مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس میں تعلیم کا حصہ صرف ڈیڑھ فی صد ہے، جو بہت ہی کم ہے‘۔
اُن کے بقول، امریکہ کی ترقی کا راز یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے اعلیٰ تعلیم پر بھاری رقوم صرف کیں۔ طالب علموں کو بڑے پیمانے پر قرضے اور مالی وسائل فراہم کیے۔
اُنھوں نے کہا کہ، تعلیم معاشی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غربت دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کی مالی مدد کرنے کی بجائے ان پر تعلیم اور ہنر کے راستے کھولیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔
پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات سے متعلق سوال پر کانگریس مین کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں پاکستان امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔ ’دہشت گرد معصوم پاکستانیوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ جب میری جنرل کیانی سے ملاقات ہوئی تو ہم نے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں بات چیت کے بعد اس پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لیےہم دونوں کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے‘۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے کلک کیجیئے:
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک افغانستان کی موجودہ صورت حال کا تعلق ہے، ’پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اور ہم اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے کے لیے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ اور ہم چاہتے کہ سرحد کے آرپار واقع دہشت گردی کے تربیتی مراکز کا قلع قمع کیا جائے‘۔
گذشتہ چند برسوں سے تواتر سے سائبر حملوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں، جس کا نشانہ کبھی بینکاری نظام بنتے ہیں، کبھی بڑے بڑے کاروباری ادارے زد میں آتے ہیں اور کبھی ان حملوں کے ذریعے حساس امریکی اداروں کے کمپیوٹروں میں محفوظ خفیہ معلومات چرالی جاتی ہیں یا نیٹ ورک سے منسلک کمپیوٹروں کو بھاری نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ، سائبر حملے صرف اکیلے امریکہ کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہیکرز دنیا کے اکثر ممالک کے لیے درد سر بنتے جارہے ہیں۔ اور ان حملوں کو روکنے کے لیے ایک مربوط نظام وضع کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔
امریکی کانگریس میں سائبر حملوں کے مقابلے سے متعلق کانگریس مین ڈچ روپرس برگر اور ان کے ایک ساتھی نے ایوان میں بل پیش کیا ہے۔
کانگریس مین ڈچ روپرس برگر، کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی اور آرمرڈ فورسز کمیٹی کے ایک اہم رکن ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن پروگرام کیفے ڈی سی میں اردو سروس کے چیف فیض رحمن نے ان سے سائبر حملوں کی روک تھام سمیت دہشت گردوں کا کھوج لگانے اور دہشت گردی خلاف جنگ میں خفیہ اداروں کے کردار اور کارکردگی اور دوسرے اہم موضوعات پر تفصیلی انٹرویو کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے حملے ایک بہت بڑے خطرے کا روپ دھار رہے ہیں۔ ان حملوں سے نہ صرف اہم اداروں کی ویب سائٹس کو نقصان پہنچتا ہے، بلکہ اہم راز اور دستاویزات بھی چوری ہوجاتی ہیں۔
کانگریس مین روپرس برگر کا کہنا تھا کہ سائبر حملوں کا معاملہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ اس میں دہشت گرد کی حوصلہ افزائی کرنے والی حکومتیں بھی ملوث ہوسکتی ہیں اور القاعدہ جیسے نیٹ ورک بھی اسے اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا سکتے ہیں، کیونکہ انہیں علم ہے کہ میدان جنگ میں جیت نہیں سکتے، اس لیے وہ سائبر حملوں کے ذریعے ہمارے ڈیجیٹل نظاموں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت کو ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جس کی مدد سے عام لوگوں، کاروباروں اور سرکاری اداروں کو انٹرنیٹ سسٹم کو سائبر حملوں سے بچایا جاسکے۔
وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے، اس کا نیٹ ورک دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور سائبر حملوں کے مقابلے کے لیے دنیا کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
روپرس برگر 17 سال تک لوکل گورنمنٹ میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ تفتیشی پراسیکیوٹر کے طورپر بھی کام کرچکے ہیں۔ اور گذشتہ نو سال سے وہ کانگریس کے رکن ہیں۔ ان کی مہارت کا شعبہ انٹیلی جنس ہے۔ اور وہ انٹیلی جنس کمیٹی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک اہم رکن ہیں۔ انٹیلی جنس امور، عراق، افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے معاملات پر نظر رکھنے کے ساتھ وہ اپنے انتخابی ڈسٹرکٹ کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر اور بچوں پر بھی توجہ دیتے ہیں۔
سیاست میں آنے سے پہلے وہ تفتیشی پراسیکیوٹر کےطور پر کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ایک حادثہ انہیں سیاست کی دنیا میں لانے کا باعث بنا۔ ’ہوا یوں کہ، ایک پولیس کی کار میں دوران سفر وہ ایک حادثے کی لپیٹ میں آگئے جو اتنا شدید تھا کہ ان کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سرپر چوٹیں آنے سے دماغ میں سوجن ہوگئی۔ انہیں کئی ہفتوں تک اسپتال میں داخل رہنا پڑا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مصنوعی تنفس پر زندہ رکھا۔
ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کوریا کے ایک ڈاکٹر کیلی کا تیار کردہ ایک خصوصی نظام انہیں موت کے منہ سے واپس لایا۔ صحت یاب ہونے کے بعد جب ان کی ڈاکٹر کیلی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ میں تمہاری کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ اس نے کہا کہ لوگوں کی خدمت کرو۔ ڈاکٹر کیلی کی یہ نصیحت انہیں سیاست میں لے آئی۔ وہ ٹراما کے مریضوں کی مدد کے لیے قائم بورڈ آف ٹرسٹیز کا وائس چیئرمین ہیں، اور افغانستان اور عراق میں زخمی ہونے والے فوجیوں کو بہترین طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
اپنے سیاسی نظریے کے بارے میں ان کا کہناہے کہ الیکشن ختم ہو جانے کے بعد پارٹیوں کو اپنے اختلافات بھلا دینے چاہئیں اور ملک کو مسائل سے نکالنے اور عوام کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے مل کرکام کرنا چاہیئے۔
وہ کہتے کہ، ’میں نے یہ جاننے کے لیے پاکستان کے مسائل کو سمجھا ہے، اس کے بجٹ کا مطالعہ کیا تو مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس میں تعلیم کا حصہ صرف ڈیڑھ فی صد ہے، جو بہت ہی کم ہے‘۔
اُن کے بقول، امریکہ کی ترقی کا راز یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے اعلیٰ تعلیم پر بھاری رقوم صرف کیں۔ طالب علموں کو بڑے پیمانے پر قرضے اور مالی وسائل فراہم کیے۔
اُنھوں نے کہا کہ، تعلیم معاشی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غربت دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کی مالی مدد کرنے کی بجائے ان پر تعلیم اور ہنر کے راستے کھولیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔
پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات سے متعلق سوال پر کانگریس مین کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی خطے میں پاکستان امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔ ’دہشت گرد معصوم پاکستانیوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ جب میری جنرل کیانی سے ملاقات ہوئی تو ہم نے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں بات چیت کے بعد اس پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لیےہم دونوں کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے‘۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے کلک کیجیئے:
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک افغانستان کی موجودہ صورت حال کا تعلق ہے، ’پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اور ہم اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے کے لیے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ اور ہم چاہتے کہ سرحد کے آرپار واقع دہشت گردی کے تربیتی مراکز کا قلع قمع کیا جائے‘۔
گذشتہ چند برسوں سے تواتر سے سائبر حملوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں، جس کا نشانہ کبھی بینکاری نظام بنتے ہیں، کبھی بڑے بڑے کاروباری ادارے زد میں آتے ہیں اور کبھی ان حملوں کے ذریعے حساس امریکی اداروں کے کمپیوٹروں میں محفوظ خفیہ معلومات چرالی جاتی ہیں یا نیٹ ورک سے منسلک کمپیوٹروں کو بھاری نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ، سائبر حملے صرف اکیلے امریکہ کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہیکرز دنیا کے اکثر ممالک کے لیے درد سر بنتے جارہے ہیں۔ اور ان حملوں کو روکنے کے لیے ایک مربوط نظام وضع کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔
امریکی کانگریس میں سائبر حملوں کے مقابلے سے متعلق کانگریس مین ڈچ روپرس برگر اور ان کے ایک ساتھی نے ایوان میں بل پیش کیا ہے۔
کانگریس مین ڈچ روپرس برگر، کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی اور آرمرڈ فورسز کمیٹی کے ایک اہم رکن ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن پروگرام کیفے ڈی سی میں اردو سروس کے چیف فیض رحمن نے ان سے سائبر حملوں کی روک تھام سمیت دہشت گردوں کا کھوج لگانے اور دہشت گردی خلاف جنگ میں خفیہ اداروں کے کردار اور کارکردگی اور دوسرے اہم موضوعات پر تفصیلی انٹرویو کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے حملے ایک بہت بڑے خطرے کا روپ دھار رہے ہیں۔ ان حملوں سے نہ صرف اہم اداروں کی ویب سائٹس کو نقصان پہنچتا ہے، بلکہ اہم راز اور دستاویزات بھی چوری ہوجاتی ہیں۔
کانگریس مین روپرس برگر کا کہنا تھا کہ سائبر حملوں کا معاملہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ اس میں دہشت گرد کی حوصلہ افزائی کرنے والی حکومتیں بھی ملوث ہوسکتی ہیں اور القاعدہ جیسے نیٹ ورک بھی اسے اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا سکتے ہیں، کیونکہ انہیں علم ہے کہ میدان جنگ میں جیت نہیں سکتے، اس لیے وہ سائبر حملوں کے ذریعے ہمارے ڈیجیٹل نظاموں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت کو ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جس کی مدد سے عام لوگوں، کاروباروں اور سرکاری اداروں کو انٹرنیٹ سسٹم کو سائبر حملوں سے بچایا جاسکے۔
وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے، اس کا نیٹ ورک دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور سائبر حملوں کے مقابلے کے لیے دنیا کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
روپرس برگر 17 سال تک لوکل گورنمنٹ میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ تفتیشی پراسیکیوٹر کے طورپر بھی کام کرچکے ہیں۔ اور گذشتہ نو سال سے وہ کانگریس کے رکن ہیں۔ ان کی مہارت کا شعبہ انٹیلی جنس ہے۔ اور وہ انٹیلی جنس کمیٹی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک اہم رکن ہیں۔ انٹیلی جنس امور، عراق، افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے معاملات پر نظر رکھنے کے ساتھ وہ اپنے انتخابی ڈسٹرکٹ کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر اور بچوں پر بھی توجہ دیتے ہیں۔
سیاست میں آنے سے پہلے وہ تفتیشی پراسیکیوٹر کےطور پر کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ایک حادثہ انہیں سیاست کی دنیا میں لانے کا باعث بنا۔ ’ہوا یوں کہ، ایک پولیس کی کار میں دوران سفر وہ ایک حادثے کی لپیٹ میں آگئے جو اتنا شدید تھا کہ ان کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سرپر چوٹیں آنے سے دماغ میں سوجن ہوگئی۔ انہیں کئی ہفتوں تک اسپتال میں داخل رہنا پڑا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مصنوعی تنفس پر زندہ رکھا۔
ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کوریا کے ایک ڈاکٹر کیلی کا تیار کردہ ایک خصوصی نظام انہیں موت کے منہ سے واپس لایا۔ صحت یاب ہونے کے بعد جب ان کی ڈاکٹر کیلی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ میں تمہاری کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ اس نے کہا کہ لوگوں کی خدمت کرو۔ ڈاکٹر کیلی کی یہ نصیحت انہیں سیاست میں لے آئی۔ وہ ٹراما کے مریضوں کی مدد کے لیے قائم بورڈ آف ٹرسٹیز کا وائس چیئرمین ہیں، اور افغانستان اور عراق میں زخمی ہونے والے فوجیوں کو بہترین طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
اپنے سیاسی نظریے کے بارے میں ان کا کہناہے کہ الیکشن ختم ہو جانے کے بعد پارٹیوں کو اپنے اختلافات بھلا دینے چاہئیں اور ملک کو مسائل سے نکالنے اور عوام کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے مل کرکام کرنا چاہیئے۔