واشنگٹن —
شریڈا حسین امریکی معاشرے کے تنوع کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں۔ وہ ریزرو امریکی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہیں اور بوسٹن کی ایک معروف یونیورسٹی میں اسلامی دینی امور کی ایک ’چپلن‘ (رہبر) کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔
اُن کا تعلق لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے سے جزیرے ٹرینی ڈاڈ سے ہے، جہاں سے ان کے والدین روزگار اور بچوں کی بہتر تعلیم کی غرض سے ترک سکونت کرکے امریکہ آگئے تھے۔ شریڈا نے امریکہ کے معروف تعلیمی اداروں سے ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے فکری اور عملی پہلوؤں کا علم بھی حاصل کیا۔
وہ کہتی ہے کہ نائین الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد کئی برس ان کے لیے ایک کڑا امتحان تھے، کیونکہ مسلمان ہونے کے ناطے نہ صرف یہ کہ فوج میں انہیں شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، بلکہ مسلم کمیونٹی بھی فوج میں ملازمت کے باعث ان پر بھروسہ نہیں کرتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سانحہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے بعد امریکیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی اور مسلمانوں میں بھی یہ شعور پیدا ہوا کہ وہ الگ تھلگ رہنے کی بجائے اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھتے ہوئے امریکی معاشرے کا ایک فعال حصہ بنیں۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے اِس وڈیو لنک پر کلک کیجئیے:
http://www.urduvoa.com/media/video/1603282.html?z=0&zp=1
’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں اردو سروس چیف، فیض رحمٰن سے گفتگو کرتے ہوئے شریڈا حسین نے بتایا کہ وہ فوج میں مسلم چپلن کا عہدہ حاصل کرنا چاہتی تھیں، مگر انہیں اس لیے کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ فوج ایک ایسے شخص کی تلاش میں تھی جو چپلن کے امور سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ نماز کی امامت کا فریضہ بھی نبھا سکے، جب کہ اسلام میں امامہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں حصہ لینے والے امریکی فوجی دستوں میں شامل امریکی مسلم فوجی کیا سوچتے ہیں اور کس کیفیت سے گذرتے ہیں، کرنل شریڈا حسین کا کہناتھا کہ اس سلسلے میں ہم ساتھیوں کے درمیان کئی بار گفتگو ہو چکی ہے۔
’میرا نظریہ یہ ہے کہ میں ایک امریکی شہری ہوں اور امریکی فوج کا حصہ ہوں۔ نائین الیون کے بعد سے ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا ہے۔ چنانچہ، اس کا دفاع میری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ رہی بات مسلمانوں کےخلاف لڑنے کی تودنیا میں کئی مسلمان ملک دوسرے مسلمان ممالک کے خلاف جنگوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ یہ
ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے خلاف لڑائی نہیں ہوتی بلکہ یہ ملک کی دوسرے ملک کے خلاف جنگ ہوتی ہے اور اپنی سرزمین کاتحفظ ہر شخص کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مجھے حکومت کی پالیسیوں سے تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اپنے وطن کے دفاع سے ہرگز نہیں‘۔
کرنل شریڈا حسین کہتی ہیں کہ اپنی فوج کی ملازمت میں مسلمان ہونے کے ناطے انہیں کئی اہم چیلنجز کا سامنا رہا ہےاور خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ ایک بڑے عہدے پر ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ فوج میں ہمیں مختلف مقامات پر مختلف لوگوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے اور ہمیں اپنے کردار اور عمل سے ایک دوسرے کا اعتماد جیتنا ہوتا ہے۔ اگرچہ مسلم ہونے کے ناطے بعض دفعہ مجھے تلخ جملے بھی سننے پڑے، لیکن میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کا اعتماد اور بھروسہ جیتنے میں کامیاب رہی۔
چپلن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شریڈا نے کہا کہ یہ اصطلاح اسلامی دنیا کے لیے نئی ہے جب کہ عیسائی معاشرے میں یہ ایک مانوس اور جانا پہچانالفظ ہے اور معاشرے کے مختلف حصوں میں، بالخصوص، تعلیمی اداروں، اسپتالوں، جیل خانوں حتیٰ کہ فوج میں بھی چپلن موجود ہوتے ہیں۔ ان کا کام دین سے متعلق لوگوں کی راہنمائی کرنا اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے انہیں تیار کرنا ہے۔ لوگ دین سے متعلق سوالات کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی معاشرے میں کچھ عرصے سے ایک نئی قسم کے چپلن، جنہیں کمیونٹی چپلن کہاجاتاہے، سامنے آرہے ہیں۔ یہ چپلن عموماً کمیونٹی اور عبادت گاہوں کےساتھ کام کرتے ہیں۔ اب مسلم کمیونٹی میں بھی کمیونٹی چپلن نظر آنے لگے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی بوسٹن کی یونیوسٹی میں کمیونٹی چپلن کے طور پر کام کرتی ہیں۔
کرنل شریڈا حسین نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چپلن اور دینی راہنما دو الگ چیزیں ہیں۔ اگر ہم مسلمانوں کی مثال سامنے رکھیں تو ایک امام، چپلن کا کام بھی کرسکتا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ چپلن امامت بھی کراتا ہو۔ کیونکہ، چپلن مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی، جب کہ عورت امامت نہیں کراسکتی۔ اس لیے دونوں کے رول الگ الگ ہوجاتے ہیں۔
اُن کا کہناتھا کہ چپلن دینی مسائل اور تعلیمات کی آگہی رکھتا ہے اور کمیونٹی کی دینی ضروریات پوری کرسکتا ہے، جب کہ امام کا مقام اس سے آگے ہیں۔ کیونکہ، اس کے پاس دین اور عبادات کے عملی پہلوؤں کا زیادہ ادراک ہوتا ہے اور وہ ان کی ادائیگی میں راہنمائی کرتا ہے، چنانچہ امام کو قرآن اور حدیث کی تعلیم زیادہ گہرائی کے ساتھ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک چپلن کے طور پر یونیورسٹی میں اپنے امور کی انجام دہی میں پیش آنے والے چیلنجز پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکثر مرد حضرات کو جو چپلن ہونےکے ساتھ ساتھ امام بھی ہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ جمعے کے خطبے میں مختلف مسائل اور معاملات پر دینی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کی راہنمائی کرسکتے ہیں۔ اور، انہیں ضروری معلومات فراہم کرسکتے ہیں، لیکن عورت ہونے کے ناطے میرا دائرہ کار محدود ہے۔
’اس کا حل میں نے یہ نکالا ہے کہ میں جس مسئلے یا پہلو کو اپنی کمیونٹی کے علم میں لانا چاہتی ہوں، اس کے بارے میں امام صاحب کو بریف کردیتی ہوں اور وہ اسے اپنے خطبے کی تقریر میں شامل کرلیتے ہیں۔ اسی طرح میں مسلم طالب علموں سے چھوٹے گروپس کی شکل میں اور انفرادی طور پر ملتی ہوں اور دینی اور معاشرتی پہلوؤں پر ان کی راہنمائی کرتی ہوں ۔ میں نوجوانوں کو امام بننے کی تربیت دیتی ہوں تاکہ وہ مستقبل میں امامت کرا سکیں‘۔
شریڈا حسین 30 سال کی عمر تک باغیانہ خیالات رکھنے والی ایک خاتون تھیں۔انہوں نے امریکی شخص سے شادی کی، جس سے ان کی بیٹی بھی پیدا ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں مذہب کے قریب لانے میں ان کی بیٹی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ’ہوا یوں کہ جب ان کی بیٹی اسکول جانے کی عمر کو پہنچی تو شریڈا کے والدین نے کہا کہ وہ اسے چھٹی کے روز مسجد لے جایا کریں گے، تاکہ وہ مذہب کے متعلق کچھ سیکھ لے‘۔ لیکن ایک فوجی ہونے کے ناطے انہوں نے کہا کہ اپنی بیٹی کا خیال رکھنا ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ مسجد جانے لگیں اور پھر وہ مذہب کے قریب آتی چلی گئیں۔
شریڈا نے بعدازاں دوسری شادی کی جسے اب 20 سال ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا شوہر بظاہر اتنا مذہبی دکھائی نہیں دیتا لیکن وہ دل کی گہرائیوں سے مسلمان ہے اور ان کا بہت خیال رکھتا ہے۔ خاص طور پر نائین الیون کے بعد تو وہ ان کی سیکیورٹی کے سلسلے میں بڑا فکر مند تھا اور اس نے شریڈا سے کہا تھا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے حجاب کا استعمال ترک کردے۔ لیکن، انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
شریڈا کہتی ہیں ایک متنوع معاشرے میں رہتے ہوئے انہیں توازن قائم رکھنا پڑتا ہے۔ فوج کے اندر اور فوج سے باہر ان کی زندگی کے دو مختلف رنگ ہیں۔ فوج کی ڈیوٹی کے دوران وردی کی وجہ سے وہ حجاب نہیں پہن سکتیں۔ لیکن، فوج ہویاچھاونی سے باہر کی دنیا، وہ جہاں کہیں بھی ہوں اپنے کردار و عمل سے ایک سچی مسلمان ہوتی ہیں۔
اُن کا تعلق لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے سے جزیرے ٹرینی ڈاڈ سے ہے، جہاں سے ان کے والدین روزگار اور بچوں کی بہتر تعلیم کی غرض سے ترک سکونت کرکے امریکہ آگئے تھے۔ شریڈا نے امریکہ کے معروف تعلیمی اداروں سے ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے فکری اور عملی پہلوؤں کا علم بھی حاصل کیا۔
وہ کہتی ہے کہ نائین الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد کئی برس ان کے لیے ایک کڑا امتحان تھے، کیونکہ مسلمان ہونے کے ناطے نہ صرف یہ کہ فوج میں انہیں شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، بلکہ مسلم کمیونٹی بھی فوج میں ملازمت کے باعث ان پر بھروسہ نہیں کرتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سانحہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے بعد امریکیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی اور مسلمانوں میں بھی یہ شعور پیدا ہوا کہ وہ الگ تھلگ رہنے کی بجائے اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھتے ہوئے امریکی معاشرے کا ایک فعال حصہ بنیں۔
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے اِس وڈیو لنک پر کلک کیجئیے:
http://www.urduvoa.com/media/video/1603282.html?z=0&zp=1
’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں اردو سروس چیف، فیض رحمٰن سے گفتگو کرتے ہوئے شریڈا حسین نے بتایا کہ وہ فوج میں مسلم چپلن کا عہدہ حاصل کرنا چاہتی تھیں، مگر انہیں اس لیے کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ فوج ایک ایسے شخص کی تلاش میں تھی جو چپلن کے امور سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ نماز کی امامت کا فریضہ بھی نبھا سکے، جب کہ اسلام میں امامہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں حصہ لینے والے امریکی فوجی دستوں میں شامل امریکی مسلم فوجی کیا سوچتے ہیں اور کس کیفیت سے گذرتے ہیں، کرنل شریڈا حسین کا کہناتھا کہ اس سلسلے میں ہم ساتھیوں کے درمیان کئی بار گفتگو ہو چکی ہے۔
’میرا نظریہ یہ ہے کہ میں ایک امریکی شہری ہوں اور امریکی فوج کا حصہ ہوں۔ نائین الیون کے بعد سے ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا ہے۔ چنانچہ، اس کا دفاع میری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ رہی بات مسلمانوں کےخلاف لڑنے کی تودنیا میں کئی مسلمان ملک دوسرے مسلمان ممالک کے خلاف جنگوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ یہ
ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے خلاف لڑائی نہیں ہوتی بلکہ یہ ملک کی دوسرے ملک کے خلاف جنگ ہوتی ہے اور اپنی سرزمین کاتحفظ ہر شخص کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مجھے حکومت کی پالیسیوں سے تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اپنے وطن کے دفاع سے ہرگز نہیں‘۔
کرنل شریڈا حسین کہتی ہیں کہ اپنی فوج کی ملازمت میں مسلمان ہونے کے ناطے انہیں کئی اہم چیلنجز کا سامنا رہا ہےاور خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ ایک بڑے عہدے پر ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ فوج میں ہمیں مختلف مقامات پر مختلف لوگوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے اور ہمیں اپنے کردار اور عمل سے ایک دوسرے کا اعتماد جیتنا ہوتا ہے۔ اگرچہ مسلم ہونے کے ناطے بعض دفعہ مجھے تلخ جملے بھی سننے پڑے، لیکن میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کا اعتماد اور بھروسہ جیتنے میں کامیاب رہی۔
چپلن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شریڈا نے کہا کہ یہ اصطلاح اسلامی دنیا کے لیے نئی ہے جب کہ عیسائی معاشرے میں یہ ایک مانوس اور جانا پہچانالفظ ہے اور معاشرے کے مختلف حصوں میں، بالخصوص، تعلیمی اداروں، اسپتالوں، جیل خانوں حتیٰ کہ فوج میں بھی چپلن موجود ہوتے ہیں۔ ان کا کام دین سے متعلق لوگوں کی راہنمائی کرنا اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے انہیں تیار کرنا ہے۔ لوگ دین سے متعلق سوالات کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی معاشرے میں کچھ عرصے سے ایک نئی قسم کے چپلن، جنہیں کمیونٹی چپلن کہاجاتاہے، سامنے آرہے ہیں۔ یہ چپلن عموماً کمیونٹی اور عبادت گاہوں کےساتھ کام کرتے ہیں۔ اب مسلم کمیونٹی میں بھی کمیونٹی چپلن نظر آنے لگے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی بوسٹن کی یونیوسٹی میں کمیونٹی چپلن کے طور پر کام کرتی ہیں۔
کرنل شریڈا حسین نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چپلن اور دینی راہنما دو الگ چیزیں ہیں۔ اگر ہم مسلمانوں کی مثال سامنے رکھیں تو ایک امام، چپلن کا کام بھی کرسکتا ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ چپلن امامت بھی کراتا ہو۔ کیونکہ، چپلن مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی، جب کہ عورت امامت نہیں کراسکتی۔ اس لیے دونوں کے رول الگ الگ ہوجاتے ہیں۔
اُن کا کہناتھا کہ چپلن دینی مسائل اور تعلیمات کی آگہی رکھتا ہے اور کمیونٹی کی دینی ضروریات پوری کرسکتا ہے، جب کہ امام کا مقام اس سے آگے ہیں۔ کیونکہ، اس کے پاس دین اور عبادات کے عملی پہلوؤں کا زیادہ ادراک ہوتا ہے اور وہ ان کی ادائیگی میں راہنمائی کرتا ہے، چنانچہ امام کو قرآن اور حدیث کی تعلیم زیادہ گہرائی کے ساتھ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک چپلن کے طور پر یونیورسٹی میں اپنے امور کی انجام دہی میں پیش آنے والے چیلنجز پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکثر مرد حضرات کو جو چپلن ہونےکے ساتھ ساتھ امام بھی ہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ جمعے کے خطبے میں مختلف مسائل اور معاملات پر دینی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کی راہنمائی کرسکتے ہیں۔ اور، انہیں ضروری معلومات فراہم کرسکتے ہیں، لیکن عورت ہونے کے ناطے میرا دائرہ کار محدود ہے۔
’اس کا حل میں نے یہ نکالا ہے کہ میں جس مسئلے یا پہلو کو اپنی کمیونٹی کے علم میں لانا چاہتی ہوں، اس کے بارے میں امام صاحب کو بریف کردیتی ہوں اور وہ اسے اپنے خطبے کی تقریر میں شامل کرلیتے ہیں۔ اسی طرح میں مسلم طالب علموں سے چھوٹے گروپس کی شکل میں اور انفرادی طور پر ملتی ہوں اور دینی اور معاشرتی پہلوؤں پر ان کی راہنمائی کرتی ہوں ۔ میں نوجوانوں کو امام بننے کی تربیت دیتی ہوں تاکہ وہ مستقبل میں امامت کرا سکیں‘۔
شریڈا حسین 30 سال کی عمر تک باغیانہ خیالات رکھنے والی ایک خاتون تھیں۔انہوں نے امریکی شخص سے شادی کی، جس سے ان کی بیٹی بھی پیدا ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں مذہب کے قریب لانے میں ان کی بیٹی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ’ہوا یوں کہ جب ان کی بیٹی اسکول جانے کی عمر کو پہنچی تو شریڈا کے والدین نے کہا کہ وہ اسے چھٹی کے روز مسجد لے جایا کریں گے، تاکہ وہ مذہب کے متعلق کچھ سیکھ لے‘۔ لیکن ایک فوجی ہونے کے ناطے انہوں نے کہا کہ اپنی بیٹی کا خیال رکھنا ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ مسجد جانے لگیں اور پھر وہ مذہب کے قریب آتی چلی گئیں۔
شریڈا نے بعدازاں دوسری شادی کی جسے اب 20 سال ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا شوہر بظاہر اتنا مذہبی دکھائی نہیں دیتا لیکن وہ دل کی گہرائیوں سے مسلمان ہے اور ان کا بہت خیال رکھتا ہے۔ خاص طور پر نائین الیون کے بعد تو وہ ان کی سیکیورٹی کے سلسلے میں بڑا فکر مند تھا اور اس نے شریڈا سے کہا تھا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے حجاب کا استعمال ترک کردے۔ لیکن، انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
شریڈا کہتی ہیں ایک متنوع معاشرے میں رہتے ہوئے انہیں توازن قائم رکھنا پڑتا ہے۔ فوج کے اندر اور فوج سے باہر ان کی زندگی کے دو مختلف رنگ ہیں۔ فوج کی ڈیوٹی کے دوران وردی کی وجہ سے وہ حجاب نہیں پہن سکتیں۔ لیکن، فوج ہویاچھاونی سے باہر کی دنیا، وہ جہاں کہیں بھی ہوں اپنے کردار و عمل سے ایک سچی مسلمان ہوتی ہیں۔