واشنگٹن —
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہزاروں افراد نے اس طالبِ علم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی جو گزشتہ روز پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں مارا گیا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق محمد ردا 'قاہرہ یونی ورسٹی' میں انجینئرنگ سالِ اول کا طالبِ علم تھا جو جمعرات کو یونی ورسٹی کے سیکڑوں طلبہ اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے دوران مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا۔
طلبہ فوج کی حمایتِ یافتہ عبوری حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے نئے قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جن کے تحت مصر میں عوامی مظاہروں اور احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیل برسائے تھے اور فائرنگ بھی کی تھی جس میں 19 سالہ محمد ردا ہلاک اور اس کے کئی ساتھی زخمی ہوگئے تھے۔
مقتول طالبِ علم کی نمازِ جنازہ قاہرہ کے قدیم علاقے کی 'السیدہ نفیسہ' نامی مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد ادا کی گئی جس کے بعد جنازے میں شریک ہزاروں افراد اور طلبہ نے جنازے کے ساتھ احتجاجی جلوس نکالا۔
نمازِ جنازہ میں موجود ایک طالبِ علم نے، جو گزشتہ روز ہونے والے احتجاج میں بھی شریک تھا، 'رائٹرز' کو بتایا کہ پولیس نے انجینئرنگ کالج کے احاطے میں موجود احتجاجی طلبہ کو گھیر کر ان پر آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی تھی۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کی اکثریت فوج کے ہاتھوں جولائی میں برطرف ہونے والے اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حمایتی تھی جو ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کی خواتین کارکنوں کو رواں ہفتے سنائی جانے والی سخت سزاؤں پر مشتعل تھی۔
یاد رہے کہ مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ کی ایک عدالت نے بدھ کو اخوان کی 14 خواتین کارکنوں کو نئے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں 11 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
ان خواتین پر الزام تھا کہ انہوں نے گزشتہ ماہ محمد مرسی کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کرکے ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالا تھا۔ عدالت نے احتجاج میں شریک 18 سال سے کم عمرکی سات دیگر لڑکیوں کو بھی احتجاج کی پاداش میں بچوں کی جیل بھجوانے کا حکم دیا تھا۔
مصری حکومت کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے جانے والے انتہائی سخت قوانین نے مصری باشندوں کو احتجاج کے حق سے محروم کردیا ہے جس پر مصر میں حزبِ اختلاف کی اسلام پسند جماعتوں کے ساتھ ساتھ آزاد خیال سیاسی حلقے بھی احتجاج کر رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق محمد ردا 'قاہرہ یونی ورسٹی' میں انجینئرنگ سالِ اول کا طالبِ علم تھا جو جمعرات کو یونی ورسٹی کے سیکڑوں طلبہ اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے دوران مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا۔
طلبہ فوج کی حمایتِ یافتہ عبوری حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے نئے قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جن کے تحت مصر میں عوامی مظاہروں اور احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیل برسائے تھے اور فائرنگ بھی کی تھی جس میں 19 سالہ محمد ردا ہلاک اور اس کے کئی ساتھی زخمی ہوگئے تھے۔
مقتول طالبِ علم کی نمازِ جنازہ قاہرہ کے قدیم علاقے کی 'السیدہ نفیسہ' نامی مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد ادا کی گئی جس کے بعد جنازے میں شریک ہزاروں افراد اور طلبہ نے جنازے کے ساتھ احتجاجی جلوس نکالا۔
نمازِ جنازہ میں موجود ایک طالبِ علم نے، جو گزشتہ روز ہونے والے احتجاج میں بھی شریک تھا، 'رائٹرز' کو بتایا کہ پولیس نے انجینئرنگ کالج کے احاطے میں موجود احتجاجی طلبہ کو گھیر کر ان پر آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی تھی۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کی اکثریت فوج کے ہاتھوں جولائی میں برطرف ہونے والے اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حمایتی تھی جو ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کی خواتین کارکنوں کو رواں ہفتے سنائی جانے والی سخت سزاؤں پر مشتعل تھی۔
یاد رہے کہ مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ کی ایک عدالت نے بدھ کو اخوان کی 14 خواتین کارکنوں کو نئے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں 11 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
ان خواتین پر الزام تھا کہ انہوں نے گزشتہ ماہ محمد مرسی کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کرکے ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالا تھا۔ عدالت نے احتجاج میں شریک 18 سال سے کم عمرکی سات دیگر لڑکیوں کو بھی احتجاج کی پاداش میں بچوں کی جیل بھجوانے کا حکم دیا تھا۔
مصری حکومت کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے جانے والے انتہائی سخت قوانین نے مصری باشندوں کو احتجاج کے حق سے محروم کردیا ہے جس پر مصر میں حزبِ اختلاف کی اسلام پسند جماعتوں کے ساتھ ساتھ آزاد خیال سیاسی حلقے بھی احتجاج کر رہے ہیں۔