رسائی کے لنکس

کیا بھارت روس او ریوکرین کے درمیان ثالثی کر سکتا ہے؟


یوکرین پر روسی جارحیت کی وجہ سے جہاں دنیا کے کئی ممالک تشویش میں مبتلا ہیں تو وہیں بہت سے ممالک کوششیں کر رہے ہیں کہ فریقین جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں۔ بھارت بھی انہی ممالک میں شامل ہے جو جنگ بندی پر زور دے رہا ہے۔

یوکرین نے بھی بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ روس کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات سے استفادہ کرتے ہوئے اس پر زور دے کہ وہ یوکرین پر جارحیت روک دے۔ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس بابت روسی صدر ولایمیر پوٹن سے بھی بات کی تھی جب کہ اُن کا یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی سے بھی رابطہ ہوا تھا۔

ایسے میں بھارت میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا واقعی نریندر مودی اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لاسکیں؟

بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ بھارتی وزیرِ اعظم پوٹن اور زیلنسکی کے درمیان ثالثی کے خواش مند ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت متوازن مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ مذاکرات اور سفارتی ذرائع سے مسئلے کو حل کرنے کے حق میں ہے۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ 'دی پرنٹ' نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بعض ممالک صدر پوٹن اور وزیرِ اعظم مودی کے درمیان مضبوط تعلقات کے پیشِ نظر چاہتے ہیں کہ بھارت دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کرے۔

خیال رہے کہ یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا اور بھار ت میں یوکرین کے سفیر ایگور پولیکھا نے وزیر اعظم مودی سے اپیل کر رکھی ہے کہ وہ صدر پوٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کا استعمال کریں اور جنگ بندی کے لیے ان پر دباؤ ڈالیں۔

امریکیوں کی اکثریت بائیڈن کی یوکرین پالیسی سے متفق
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:17 0:00


ذرائع کے مطابق بعض دیگر ممالک نے بھی بھارت سے اپیل کی ہے کہ وہ روسی صدر سے بات کر کے انہیں یوکرین کے صدر سے براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ کریں۔

بھارت میں ایسا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر جنگ طول پکڑتی ہے تو اس کے بھارتی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی وجہ سے بھارت میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جب کہ غذائی سیکیورٹی بھی متاثر ہو گی۔

یوکرین کے وزیر ِخارجہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بھارت یوکرین کی زرعی پیداوار کے بڑے صارفین میں سے ایک ہے اور اگر جنگ جاری رہتی ہے تو ہمارے لیے نئی فصلوں کی بوائی مشکل ہو جائے گی۔ لہٰذا عالمی اور بھارتی غذائی سیکیورٹی کے پیش نظر ضروری ہے کہ جنگ فوری طور پر بند ہو۔

'حالات نازک ہیں کسی کو فون اُٹھا کر بات کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے'

سابق سفارت کار اور سینئر تجزیہ کار راجیو ڈوگرہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کون ثالثی کرنا چاہتا ہے اور کون اپنے اثرات کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وزیرِ اعظم مودی کی پوٹن اور زیلنسکی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے۔

ان کے مطابق بھارت نے اس معاملے پر غیر جانب دارانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ حالانکہ وہ امریکہ اور مغرب کے مؤقف کے برعکس ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے یوکرین اور روس دونوں نے بھارت پر اعتماد کیا ہے۔


ان کے بقول اگر کوئی غیر جانب دار نہیں ہے تو وہ ثالثی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی اسے اپنا ثالث بنائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت صورتِ حال بہت نازک ہے اور ایسے میں کسی کو بھی ٹیلی فون اٹھانے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے اور یہی ہوا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔

ان کے مطابق روس اور یوکرین کے صدور نے اس معاملے پر کسی دوسرے ملک کے ساتھ بات چیت نہیں کی۔ انہوں نے اگر بھارت سے رابطہ قائم کیا ہے تو اس کا مطلب دونوں کو اس پر اعتبار ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھار ت کو بھی دونوں رہنماؤں سے بات چیت کرنے کی ضرورت تھی تاکہ بھارت کے جو طلبہ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو بحفاظت واپس لایا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ میں روس مخالف قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کے اقدام کو بھی سراہا جا رہا ہے۔

بھارت کی فوڈ سیکیورٹی کو یوکرین بحران سے خطرہ ہو سکتا ہے؟

راجیو ڈوگرہ کے بقول یہ تاثر درست نہیں ہے کہ جنگ طویل ہوئی تو اسے بھارت کی فوڈ سیکیورٹی متاثر ہو گی، کیوں کہ بھارت اجناس کے معاملے میں خود کفیل ہے بلکہ دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کرتا ہے۔

ان کے خیال میں اگر جنگ چلتی رہتی ہے تو بھارت کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔ ابھی سے تیل، میٹل اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا یہاں کی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ضرور ہے۔ اس لیے جنگ بندی بھارت کے لیے بھی ضروری ہے۔

ایک سابق فوجی عہدے دار لیفٹننٹ جنرل پرکاش مینن کا کہنا ہے کہ بھارت روس یوکرین جنگ کو یورپی طاقتوں کے درمیان تاریخی تنازعے کے طور پر دیکھتا ہے۔

ان کے مطابق حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ روس کے اس قدم کو حملہ قرار دیتا لیکن وزیرِ اعظم مودی نے روس اور یوکرین کے صدور سے بات چیت کے دوران سیز فائر پر زور دیا ہے۔

انہوں نے ایک ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے لیے لکھے اپنے مضمون میں کہا کہ اس وقت بھارت سلامتی کونسل کا ایک منتخب رکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ صورتِ حال کو بہتر بنانے میں کیا تعاون دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو سلامتی کونسل میں فوری سیز فائر کے لیے ایک قرارداد پیش کرنی چاہیے۔ سیز فائر امن کے طویل راستے پر ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔

ان کے مطابق روس ایسی کسی قرارداد کو ویٹو کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا بھی امکان ہے کہ چین سیز فائر کی تجویز کی حمایت کرے گا۔ اگر روس ویٹو کرتا ہے تو وہ عالمی جذبات کے منافی ہوگا او راس کا کریملن پر اثر پڑ سکتا ہے۔

پرکاش مینن کہتے ہیں کہ روس کے ویٹو کی صورت میں بھی بھارت سیز فائر کی اپنی اپیل جاری رکھ سکتا ہے۔ کیونکہ سلامتی کونسل میں بھارت واحد ملک ہے جس کے نیٹو ممالک، روس اور یوکرین سے اچھے تعلقات ہیں۔

ان کے مطابق بھارت کی سفارتی کوششیں اس وقت تک جاری رہنی چاہئیں جب تک کہ وہ بے اثر نہیں ہو جاتیں۔ اور اگر وہ ناکام ہو جاتی ہیں تو کم از کم ہم مستقبل میں خود سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے عالمی امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG