رسائی کے لنکس

آزادی میری سوچ سے کہیں بہتر ہے: گوانتا نامو کا سابق قیدی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اس پر 2002ء میں افغانستان میں ایک امریکی فوجی کرسٹوفر سپیئر کو دستی بم پھینک کر ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ حراست کے وقت اس کی عمر 15 سال تھی۔

کینیڈا کی عدالت نے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کے سابق قیدی عمر خضر کو رہا کر دیا ہے جس کے بعد ایک بار پھر کیوبا میں اس متنازع امریکی حراستی مرکز کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہو گئی ہے۔

عمر اس حراستی مرکز میں لایا جانے والا سب سے کم عمر قیدی تھا۔ اس پر 2002ء میں افغانستان میں ایک امریکی فوجی کرسٹوفر سپیئر کو دستی بم پھینک کر ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ حراست کے وقت اس کی عمر 15 سال تھی۔

اسے 2012ء میں ایک معاہدے کے تحت گوانتانامو سے کینیڈا منتقل کر دیا گیا تھا اور حکومت نے 28 سالہ عمر کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے لیے درخواست دائر کر رکھی تھی جسے مسترد کرتے ہوئے جمعرات کو اسے بعض شرائط کے ساتھ رہا کر دیا گیا۔

عمر کو اپنے وکیل کے ساتھ رہنا ہوگا، اسے ہروقت کلائی پر ٹریکنگ والا کڑا پہننا ہو گا اور اسے انٹرنیٹ کے استعمال کی اجازت نہیں ہو گی۔

رہائی کے بعد عمر نے صحافیوں سے کہا کہ " آزادی میری سوچ سے کہیں بہتر ہے۔"

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جیف راتھکی کا کہنا تھا انھیں معلوم ہے کہ کینیڈا کی حکومت نے عمر کو قید میں رکھنے کی درخواست کی تھی اور ان کے بقول امریکہ انسداد دہشت گردی میں کینیڈا سے قریبی تعاون کر رہا ہے۔

وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ عمر کو اس کے والد احمد سعید خضر نے جنگ میں جھونکا تھا۔ وہ مبینہ طور پر القاعدہ کی مالی وسائل فراہم کرتا تھا اور اس کا خاندان اسامہ بن لادن کے ساتھ رہتا بھی رہا ہے۔ ان کے بقول وہ 2003ء میں پاکستانی فوج کے آپریشن میں مارا گیا تھا۔

اپنے وکیل کے ساتھ کی گئی پریس کانفرنس میں عمر خضر نے دہشت گردی کو مسترد کرتے ہوئے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر کینیڈا میں نئی زندگی شروع کرنا چاہتا ہے۔

XS
SM
MD
LG