کینیڈا کے شہر، کیوبیک کی پولیس نے بتایا ہے کہ مسجد پر مہلک شوٹنگ کے واقع کے حوالے سے ایک شخص زیرِ حراست ہے، جب کہ دوسرے مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، جنھیں عینی شاہد کہا جا رہا ہے۔
اِس سے قبل، عدالت کے ایک کلرک نے دونوں افراد کی شناخت الیگزینڈر بسونے اور محمد القادر بتائی تھی؛ لیکن یہ واضح نہیں آیا اِن میں سے کس شخص پر شبہے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اتوار کی رات گئے ہونے والے شوٹنگ کے واقع میں چھ افراد ہلاک جب کہ آٹھ زخمی ہوئے، جس کی مذمت کرتے ہوئے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اِسے ’’مسلمانوں کے خلاف دہشت گرد حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ ٹروڈو، جو پیر کے روز کیوبیک سٹی پہنچے، ایک بیان میں کہا ہے کہ اُن کا ملک ’’تنوع اور مذہبی رواداری کے اقدار کا حامی ہے‘‘۔
بیان میں اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’کینیڈا کے مسلمان ہمارے قومی دھارے کا ایک اہم حصہ ہیں، اور اِن احمقانہ حرکات کی ہماری برادریوں، شہروں اور ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔
شہر کی پولیس کے مطابق یہ واقعہ اتوار کی شام اسلامک کلچرل سینٹر میں پیش آیا اور یہاں سے دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ان کی شناخت کے بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" سے بات کرتے ہوئے سینٹر کے صدر محمد ینگوئی کا کہنا تھا کہ "یہ سب یہاں کیوں ہو رہا ہے؟ یہ وحشیانہ عمل ہے۔"
ینگوئی کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے وقت یہاں 53 افراد موجود تھے جو نماز کے لیے آئے تھے۔
وزیراعظم جسٹن ٹروڈیو نے ٹوئٹر پر کہا کہ "آج رات کینیڈینز کیوبیک شہر میں مسجد پر بزدلانہ حملے میں مرنے والوں کے لیے غمگین ہیں۔" انھوں نے اس واقعے میں متاثر ہونے والوں سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ جون میں اسی کلچرل سینٹر کے باہر نامعلوم افراد نے سؤر کا سر رکھ دیا۔ یہ جانور اسلام میں حرام ہے۔
اتوار کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو کا کہنا تھا کہ ان کے شہر کا محکمہ پولیس شہر میں مساجد کو اضافی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔
ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ "نیویارک کے باسیو جو مسلمان ہیں، یہ شہر آپ کو تحفظ دے گا۔ پولیس آپ کو تحفظ دے گی۔ ہم تمام منافرت اور تعصب سے لڑیں گے۔"
کیوبیک شہر میں مسلمانوں کی آبادی میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے جن میں اکثریت شمالی افریقہ سے آنے والے تارکین وطن کی ہے۔
یہاں گزشتہ برسوں میں نسلی امتیاز اور منافرت پر مبنی واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس شہر میں حجاب یا نقاب پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات بھی کرتی رہی ہے۔
2015ء میں پیرس میں ہونے والے دہشت گرد واقعات کے بعد اس شہر سے ملحق صوبہ اونٹاریو میں ایک مسجد کو نذر آتش کرنے کا واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے۔ پولیس ایسے واقعات کی مذہبی منافرت کے تناظر میں تحقیقات کرتی ہے۔