شدت پسند تنظیم داعش نے جمعے کو لیبیا کے مشرقی علاقے میں ہونے والے تین خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جن میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
تینوں دھماکے کار سوار حملہ آوروں نے قبہ نامی مشرقی قصبے میں کیے جو لیبیا کی حکومت کے عارضی صدر مقام بیضا سے صرف 40 کلومیٹر دور ہے۔
حکام کے مطابق تینوں حملہ آوروں نے جمعے کی نماز سے عین قبل ایک پیٹرول پمپ، سکیورٹی اداروں کے مقامی صدر دفتر اور ٹاؤن کونسل کو نشانہ بنایا۔
حکام کا کہنا ہے کہ لیبیا کی پارلیمان کے اسپیکر اگیلا صالح کی رہائش گاہ بھی حملے کا نشانہ بننے والے ٹاو ٔن کونسل کے دفتر کے نزدیک ہی واقع ہے۔
پولیس حکام اور طبی عملے نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ تینوں دھماکوں میں لگ بھگ 40 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں مصر کے تین شہری بھی شامل ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ داعش سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے ایک مقامی شدت پسند گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
حکام کے مطابق گروپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ حملے پیر کو لیبیا کے مشرقی علاقے دیرنا پر مصر کی فضائی بمباری کے جواب میں کیے گئے ہیں۔
داعش سے تعلق رکھنے والے مبینہ جنگجووں نے گزشتہ ہفتے دارالحکومت طرابلس کے ایک ہوٹل میں گھس کر وہاں مقیم مصر کے شہری 21 قبطی عیسائیوں کو اغوا کرنے کے بعد سر قلم کرکے قتل کردیا تھا۔
اس واقعے کے ردِ عمل میں مصر کی جنگی طیاروں نے پیر کو دیرنا میں داعش کے مبینہ ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔
پارلیمان کے اسپیکر اگیلا صالح نے اپنے آبائی قصبے میں ہونے والے حملوں پر سات روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
لیبیا کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ وزیرِاعظم عبداللہ الثانی اور ان کی حکومت بیدا سے اپنا نظمِ حکومت چلاتی ہے کیوں کہ دارالحکومت طرابلس پر ایک متوازی حکومت قائم ہے جسے کئی جنگجو ملیشیاؤں کی حمایت حاصل ہے۔
وزیرِاعظم الثانی کی حامی منتخب پارلیمان کے ارکان ایک دوسرے مشرقی شہر تبوک میں مقیم ہیں جہاں وقتاً فوقتاً پارلیمان کا اجلاس منعقد ہوتا ہے۔