کراچی میں نیشنل ہائی وے پر، سہراب گوٹھ سے کچھ آگے، کاروں کا ایک ایسا ’نیلام گھر‘ موجود ہے جہاں بڑی سے بڑی، بہترین اور مہنگی ترین کار ’صرف ایک منٹ میں‘فروخت ہوجاتی ہے۔ کاروں کا یہ نیلام ہر اتوار کو شام چار بجے شروع ہوتا ہے اور 100 سے زائد گاڑیاں 2 گھنٹے سے بھی کم وقت میں فروخت کردی جاتی ہیں۔
فروخت کاحیران کن طریقہ
جی ہاں۔۔! یہاں پانچ سے 10 کروڑ اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ رقم کے سودے آناً فاناً طے ہوجاتے ہیں۔ ’کھیل‘ صرف تجربے، برق رفتاری سے فیصلہ کرنے اور آپ کی انتہائی تیز حاضر دماغی کا ہے کیوں کہ ایک سیکنڈ۔۔جی ہاں ۔۔۔صرف ایک سیکنڈ کے لئے آپ چوکے نہیں کہ لاکھوں کا سودا دوسرے کا ہوجاتا ہے۔
کاروں کے اس ’نیلام گھر‘کا نام بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ ’جان جاپان موٹرز‘۔ اس شو روم کے مالک کے بارے میں بھی جانتے چلئے۔ ان کا نام ہے شاہ محمد عطا اللہ ہے، جو کوئٹہ کے رہنے والے ہیں۔
شاہ محمدعطا اللہ کے بارے میں ان کے ایک دیرینہ اور قریبی ملازم امیر جان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ شاہ صاحب پچھلے دس بارہ سال سے ری کنڈیشنڈ کاروں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ جاپان اور کوریا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک سے ری کنڈیشن یا استعمال شدہ کاریں خریدتے اور یہاں لاکر فروخت کردیتے ہیں۔
شاہ محمد کی کاریں ان کے گھر کے بالکل سامنے والے میدان میں کھڑی ہوتی ہیں۔ہراتوار کو جیسے ہی سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے خریداروں کا رش لگنے لگتا ہے۔ خریداروں میں عام لوگوں کے علاوہ کار شو رومز کے مالکان اور نئی نئی کاروں کو دیکھنے کے شوقین افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔
شاہ محمد جیسے ہی گھر کے دروازے سے نکل کر میدان کی طرف آتے ہیں لوگوں کی بھیڑ انہیں گھیر لیتی ہے۔ شاہ محمد کے ہاتھ میں لاوٴڈ اسپیکر ہوتا ہے وہ میدان میں کھڑی پہلی کار کے پاس پہنچتے ہی گاڑی کا نام، میک، ماڈل اور اس کی قیمت ایک سانس میں بیان کرتے ہیں۔
ان کی بات ابھی ختم بھی نہیں ہوتی کہ خریداروں کی جانب سے ان کی بتائی ہوئی ابتدائی قیمت سے بڑھ کرپہلی بولی لگادی جاتی ہے۔ پھر فوراً ہی دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں، چھٹی بولی لگادی جاتی ہے۔ شاہ محمدلاوٴڈ اسپیکر پر ان بولیوں کو ساتھ ساتھ دہراتے چلے جاتے ہیں اور جیسے ہی آخری بولی لگتی ہے وہ لمحے بھر کا بھی توقف کئے بغیر ’مبارک‘ کہتے ہیں اور یوں گاڑی ایک منٹ کے اندر اندر فروخت ہوجاتی ہے۔
ان کے ساتھ ساتھ ان کے دو تین ملازم ہوتے ہیں جو بولی مکمل ہونے کے دس سے پندرہ سیکنڈز کے اندر اندر آخری بولی دہندہ کو ٹوکن کی شکل میں رسید کاٹ کر دے دیتے ہیں۔ اس ٹوکن کے بدلے گاڑی کا ’بیعانہ‘ جو کم از کم 10ہزار روپے ہوتا ہے فوری اداکیا جاتا ہے جبکہ باقی رقم تین دن کے اندر اندر ادا کرنا لازمی ہوتی ہے۔
گاڑیوں کے نیلام کا یہ طریقہ اتنی تیزی سے طے ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ اس نیلامی کا مشاہدہ کرنے والا شخص حیران پہ حیران ہوتا چلاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے لئے اس’تیزی‘ کو سمجھنا پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔
دراصل اتوار کو بولی کے لئے پیش کی جانے والی گاڑیاں پیر سے ہی میدان میں سجنی شروع ہوجاتی ہیں۔ پورے ہفتے میں سے کسی بھی دن آپ اس گاڑی کو جا کر اس کا اندر باہر سے، انجن اور چیسز تک کا معائنہ کرسکتے ہیں۔ شاہ صاحب کے ملازمین آپ کو ہر طریقے سے مطمئن کریں گے۔ لیکن، آپ کی پسندیدہ گاڑی کی نیلامی صرف اتوار کو ہی ہوگی۔ لہذا، لوگ اتوار سے پہلے پہلے جاکر گاڑیاں پسند کرتے ہیں اور مارکیٹ ویلیو کو ذہن میں رکھ کر عین نیلامی والے دن’صرف ایک منٹ ‘میں اس کی بولی لگادیتے ہیں۔
کراچی :تضادات کا مظہر
کراچی تضادات کا مظہر ہے۔ جن سڑکوں کے کنارے اور چوراہوں پر دو وقت کی روٹی کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہزاروں لوگ مل جائیں گے وہیں دنیا کی مہنگی ترین اور قیمتی ملکی و غیر ملکی انگنت گاڑیاں بھی انہی سڑکوں اور چوراہوں پر دوڑتی بھاگتی نظر آتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر، تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، کسی ترقی یافتہ ملک کا گماں ضرور ہوتا ہے۔
پھر کاروں کی نیلامی کا اوپر بیان کردہ برق رفتار طریقہ شہر قائد کی دورخی زندگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ جان جاپان موٹرز سے ہی ایک مہنگی جاپانی کار نیلامی میں خریدنے والے کراچی کے نوجوان رہائشی محمد مبشر کا کہنا ہے ’ہوسکتا ہے پہلی نظر میں کسی کو یہ کاریں بہت مہنگی لگیں۔ لیکن یہاں مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر گاڑیاں فروخت ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کامیاب کاروبار ہے۔ جو شو رومز کے مالکان یہاں سے گاڑی خریدیں وہ اپنا منافع رکھ کر اس مزید زیادہ رقم میں فروخت کریں گے ۔۔۔یہاں ہر شخض مہنگائی کا رونا روتا ہے مگر دیکھ لیجئے یہاں چند گھنٹوں میں کروڑوں کے سودے بھی ہورہے ہیں۔
مہنگائی کے باوجود ڈیمانڈ میں اضافہ
پاکستان میں اس وقت اندرون ملک تیار ہونے والی اور بیرون ملک سے درآمد ہونے والی ری کنڈیشن، دونوں قسم کی گاڑیاں موجود ہیں۔ ’ہنڈا اٹلس’، ’پاک سوزوکی‘ اور ’انڈس موٹرز‘ نامی بڑی موٹر کار کمپنیز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2013ء سے اپریل 2014ء تک کی دس ماہ کی مدت کے دوران ایک لاکھ بارہ ہزار چار سو ستر گاڑیاں فروخت ہوئیں جن میں کمرشل وہیکلز، وینز اور جیپ بھی شامل ہیں جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران ایک لاکھ آٹھ ہزار تین سو چونتیس گاڑیاں فروخت ہوئیں یعنی پچھلے سال کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں تقریباً چار فیصد کا اضافہ ہوا۔
پچاس سے زائد برانڈز کی گاڑیاں
ملک میں مہنگائی اور شہر میں امن و امان کے سنگین مسئلے کے باوجود وی او اے کے اس نمائندے کی جانب سے مشاہدے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہر میں اس وقت 50 سے زیادہ برانڈز کی گاڑیاں استعمال ہورہی ہیں۔ ان میں ’آڈی، بی ایم ڈبلیو، ڈائی ہاٹسو، ہنڈا، ہنڈائی، لینڈ روور، مرسیڈیز، پورش، رینج روور، سوزوکی، نسان ،ایڈم، کلٹس اور ٹویوٹا جیسی نامی گرامی اور مہنگی گاڑیاں شامل ہیں۔
شہر کے ہر کونے میں کاروں کا جمعہ بازار
کراچی میں کار کے شوقین افراد کی کمی بالکل نہیں۔ اس بات کا ثبوت ہے وہ شو رومز اور نئی و پرانی کاروں کے ’جمعہ بازار‘ جو شہر کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ مثلاً خالد بن روڈ روڈ، شاہراہ فیصل، کورنگی روڈ، راشد منہاس روڈ، پی ای سی ایچ ایس، سائٹ، ڈیفنس ہاوٴسنگ سوسائٹی، مین یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح روڈ، اولڈ کوئنز روڈ، سپرہائی وے اور نیشنل ہائی ویز۔
ہر’اتوار‘ کو لگنے والا گاڑیوں کا ’جمعہ‘ بازار
پرانی گاڑیوں کا سب سے بڑا بازار نیوکراچی میں لگتا ہے۔ جسے کاروں کا ’جمعہ بازار‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ملک میں دس پندرہ سال پہلے تک ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی اس لئے کاروں کا جمعہ بازار بھی اسی دن لگتا تھا مگر اب ہفتہ وار چھٹی اتوار کو ہوتی ہے۔ لیکن اس بازار کو اب بھی ’جمعہ بازار‘ہی کہا جاتا ہے کیوں کہ’جمعہ بازار‘ کی اصطلاح اب ’سستی چیزوں کے مرکز‘ سے لی جاتی ہے۔۔۔خیر، نیوکراچی بازار کی بات ہورہی تھی جہاں لوگ اپنے طور پر چھوٹی، سستی اور پرانی گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔
یہ استعمال شدہ اور مقامی طور پر تیار کرکردہ گاڑیوں کا بازار ہے۔ اس بازار میں فروخت کے لئے اپنی کار لانے والے ہر شخص سے 350روپے اینٹری فیس لی جاتی ہے، جبکہ گاڑی بک جانے کی صورت میں اسے اور کار کے نئے خریدار، دونوں کو بازار سے نکلتے وقت ’مٹھائی کے پیسے‘ بھی دینے پڑتے ہیں۔
شہر میں 25 لاکھ سے زیادہ کاریں
یہاں سب سے زیادہ ڈیمانڈ جاپانی گاڑیوں کی ہے۔ لیکن جرمن، کوریا اور دیگر نصف درجن ممالک کی گاڑیوں کا استعمال بھی عام بات ہے۔ محکمہ ٹریفک کے ایک محتاط تخمینے کے مطابق شہر میں موٹر کارز کی تعداد 25لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ تاہم، یہ تعداد مسلسل بڑھنے پر ہے۔
ایک دن میں 350 کاریں سڑک پر ۔۔
نئی کار فائنانسنگ کے لئے بینکوں کی خدمات لان کی صورت میں موجود ہیں جبکہ کچھ سال پہلے تک جب بینکوں کی شرائط بہت نرم تھیں اس وقت ایک دن میں تین سو سے ساڑھے تین سو نئی کاریں سڑکوں پر آرہی تھیں۔
ایک اور حیرانی۔۔!!
کاریں تیار کرنے والے ادارے’ٹیوٹا پاکستان‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر سلیم گوڈیل نے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’عام گاڑیوں کی بات ہی چھوڑ دیجئے شہر میں اب بلٹ پروف گاڑیوں کی ڈیمانڈ بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ، ایک بلٹ پروف گاڑی کی تیاری پر 40لاکھ سے ایک کروڑ 20لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ اگر اس قیمت کو گاڑی کی مجموعی قیمت میں جمع کرلیا جائے تو یہ رقم ایک عام آدمی کے لئے حیران کن اور اس کی آنکھیں خیرہ کردینے کے لئے کافی ہیں۔‘
فروخت کاحیران کن طریقہ
جی ہاں۔۔! یہاں پانچ سے 10 کروڑ اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ رقم کے سودے آناً فاناً طے ہوجاتے ہیں۔ ’کھیل‘ صرف تجربے، برق رفتاری سے فیصلہ کرنے اور آپ کی انتہائی تیز حاضر دماغی کا ہے کیوں کہ ایک سیکنڈ۔۔جی ہاں ۔۔۔صرف ایک سیکنڈ کے لئے آپ چوکے نہیں کہ لاکھوں کا سودا دوسرے کا ہوجاتا ہے۔
کاروں کے اس ’نیلام گھر‘کا نام بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ ’جان جاپان موٹرز‘۔ اس شو روم کے مالک کے بارے میں بھی جانتے چلئے۔ ان کا نام ہے شاہ محمد عطا اللہ ہے، جو کوئٹہ کے رہنے والے ہیں۔
شاہ محمدعطا اللہ کے بارے میں ان کے ایک دیرینہ اور قریبی ملازم امیر جان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ شاہ صاحب پچھلے دس بارہ سال سے ری کنڈیشنڈ کاروں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ جاپان اور کوریا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک سے ری کنڈیشن یا استعمال شدہ کاریں خریدتے اور یہاں لاکر فروخت کردیتے ہیں۔
شاہ محمد کی کاریں ان کے گھر کے بالکل سامنے والے میدان میں کھڑی ہوتی ہیں۔ہراتوار کو جیسے ہی سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے خریداروں کا رش لگنے لگتا ہے۔ خریداروں میں عام لوگوں کے علاوہ کار شو رومز کے مالکان اور نئی نئی کاروں کو دیکھنے کے شوقین افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔
شاہ محمد جیسے ہی گھر کے دروازے سے نکل کر میدان کی طرف آتے ہیں لوگوں کی بھیڑ انہیں گھیر لیتی ہے۔ شاہ محمد کے ہاتھ میں لاوٴڈ اسپیکر ہوتا ہے وہ میدان میں کھڑی پہلی کار کے پاس پہنچتے ہی گاڑی کا نام، میک، ماڈل اور اس کی قیمت ایک سانس میں بیان کرتے ہیں۔
ان کی بات ابھی ختم بھی نہیں ہوتی کہ خریداروں کی جانب سے ان کی بتائی ہوئی ابتدائی قیمت سے بڑھ کرپہلی بولی لگادی جاتی ہے۔ پھر فوراً ہی دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں، چھٹی بولی لگادی جاتی ہے۔ شاہ محمدلاوٴڈ اسپیکر پر ان بولیوں کو ساتھ ساتھ دہراتے چلے جاتے ہیں اور جیسے ہی آخری بولی لگتی ہے وہ لمحے بھر کا بھی توقف کئے بغیر ’مبارک‘ کہتے ہیں اور یوں گاڑی ایک منٹ کے اندر اندر فروخت ہوجاتی ہے۔
ان کے ساتھ ساتھ ان کے دو تین ملازم ہوتے ہیں جو بولی مکمل ہونے کے دس سے پندرہ سیکنڈز کے اندر اندر آخری بولی دہندہ کو ٹوکن کی شکل میں رسید کاٹ کر دے دیتے ہیں۔ اس ٹوکن کے بدلے گاڑی کا ’بیعانہ‘ جو کم از کم 10ہزار روپے ہوتا ہے فوری اداکیا جاتا ہے جبکہ باقی رقم تین دن کے اندر اندر ادا کرنا لازمی ہوتی ہے۔
گاڑیوں کے نیلام کا یہ طریقہ اتنی تیزی سے طے ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ اس نیلامی کا مشاہدہ کرنے والا شخص حیران پہ حیران ہوتا چلاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے لئے اس’تیزی‘ کو سمجھنا پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔
دراصل اتوار کو بولی کے لئے پیش کی جانے والی گاڑیاں پیر سے ہی میدان میں سجنی شروع ہوجاتی ہیں۔ پورے ہفتے میں سے کسی بھی دن آپ اس گاڑی کو جا کر اس کا اندر باہر سے، انجن اور چیسز تک کا معائنہ کرسکتے ہیں۔ شاہ صاحب کے ملازمین آپ کو ہر طریقے سے مطمئن کریں گے۔ لیکن، آپ کی پسندیدہ گاڑی کی نیلامی صرف اتوار کو ہی ہوگی۔ لہذا، لوگ اتوار سے پہلے پہلے جاکر گاڑیاں پسند کرتے ہیں اور مارکیٹ ویلیو کو ذہن میں رکھ کر عین نیلامی والے دن’صرف ایک منٹ ‘میں اس کی بولی لگادیتے ہیں۔
کراچی :تضادات کا مظہر
کراچی تضادات کا مظہر ہے۔ جن سڑکوں کے کنارے اور چوراہوں پر دو وقت کی روٹی کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہزاروں لوگ مل جائیں گے وہیں دنیا کی مہنگی ترین اور قیمتی ملکی و غیر ملکی انگنت گاڑیاں بھی انہی سڑکوں اور چوراہوں پر دوڑتی بھاگتی نظر آتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر، تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، کسی ترقی یافتہ ملک کا گماں ضرور ہوتا ہے۔
پھر کاروں کی نیلامی کا اوپر بیان کردہ برق رفتار طریقہ شہر قائد کی دورخی زندگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ جان جاپان موٹرز سے ہی ایک مہنگی جاپانی کار نیلامی میں خریدنے والے کراچی کے نوجوان رہائشی محمد مبشر کا کہنا ہے ’ہوسکتا ہے پہلی نظر میں کسی کو یہ کاریں بہت مہنگی لگیں۔ لیکن یہاں مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر گاڑیاں فروخت ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کامیاب کاروبار ہے۔ جو شو رومز کے مالکان یہاں سے گاڑی خریدیں وہ اپنا منافع رکھ کر اس مزید زیادہ رقم میں فروخت کریں گے ۔۔۔یہاں ہر شخض مہنگائی کا رونا روتا ہے مگر دیکھ لیجئے یہاں چند گھنٹوں میں کروڑوں کے سودے بھی ہورہے ہیں۔
مہنگائی کے باوجود ڈیمانڈ میں اضافہ
پاکستان میں اس وقت اندرون ملک تیار ہونے والی اور بیرون ملک سے درآمد ہونے والی ری کنڈیشن، دونوں قسم کی گاڑیاں موجود ہیں۔ ’ہنڈا اٹلس’، ’پاک سوزوکی‘ اور ’انڈس موٹرز‘ نامی بڑی موٹر کار کمپنیز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2013ء سے اپریل 2014ء تک کی دس ماہ کی مدت کے دوران ایک لاکھ بارہ ہزار چار سو ستر گاڑیاں فروخت ہوئیں جن میں کمرشل وہیکلز، وینز اور جیپ بھی شامل ہیں جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران ایک لاکھ آٹھ ہزار تین سو چونتیس گاڑیاں فروخت ہوئیں یعنی پچھلے سال کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں تقریباً چار فیصد کا اضافہ ہوا۔
پچاس سے زائد برانڈز کی گاڑیاں
ملک میں مہنگائی اور شہر میں امن و امان کے سنگین مسئلے کے باوجود وی او اے کے اس نمائندے کی جانب سے مشاہدے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہر میں اس وقت 50 سے زیادہ برانڈز کی گاڑیاں استعمال ہورہی ہیں۔ ان میں ’آڈی، بی ایم ڈبلیو، ڈائی ہاٹسو، ہنڈا، ہنڈائی، لینڈ روور، مرسیڈیز، پورش، رینج روور، سوزوکی، نسان ،ایڈم، کلٹس اور ٹویوٹا جیسی نامی گرامی اور مہنگی گاڑیاں شامل ہیں۔
شہر کے ہر کونے میں کاروں کا جمعہ بازار
کراچی میں کار کے شوقین افراد کی کمی بالکل نہیں۔ اس بات کا ثبوت ہے وہ شو رومز اور نئی و پرانی کاروں کے ’جمعہ بازار‘ جو شہر کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ مثلاً خالد بن روڈ روڈ، شاہراہ فیصل، کورنگی روڈ، راشد منہاس روڈ، پی ای سی ایچ ایس، سائٹ، ڈیفنس ہاوٴسنگ سوسائٹی، مین یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح روڈ، اولڈ کوئنز روڈ، سپرہائی وے اور نیشنل ہائی ویز۔
ہر’اتوار‘ کو لگنے والا گاڑیوں کا ’جمعہ‘ بازار
پرانی گاڑیوں کا سب سے بڑا بازار نیوکراچی میں لگتا ہے۔ جسے کاروں کا ’جمعہ بازار‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ملک میں دس پندرہ سال پہلے تک ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی اس لئے کاروں کا جمعہ بازار بھی اسی دن لگتا تھا مگر اب ہفتہ وار چھٹی اتوار کو ہوتی ہے۔ لیکن اس بازار کو اب بھی ’جمعہ بازار‘ہی کہا جاتا ہے کیوں کہ’جمعہ بازار‘ کی اصطلاح اب ’سستی چیزوں کے مرکز‘ سے لی جاتی ہے۔۔۔خیر، نیوکراچی بازار کی بات ہورہی تھی جہاں لوگ اپنے طور پر چھوٹی، سستی اور پرانی گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔
یہ استعمال شدہ اور مقامی طور پر تیار کرکردہ گاڑیوں کا بازار ہے۔ اس بازار میں فروخت کے لئے اپنی کار لانے والے ہر شخص سے 350روپے اینٹری فیس لی جاتی ہے، جبکہ گاڑی بک جانے کی صورت میں اسے اور کار کے نئے خریدار، دونوں کو بازار سے نکلتے وقت ’مٹھائی کے پیسے‘ بھی دینے پڑتے ہیں۔
شہر میں 25 لاکھ سے زیادہ کاریں
یہاں سب سے زیادہ ڈیمانڈ جاپانی گاڑیوں کی ہے۔ لیکن جرمن، کوریا اور دیگر نصف درجن ممالک کی گاڑیوں کا استعمال بھی عام بات ہے۔ محکمہ ٹریفک کے ایک محتاط تخمینے کے مطابق شہر میں موٹر کارز کی تعداد 25لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ تاہم، یہ تعداد مسلسل بڑھنے پر ہے۔
ایک دن میں 350 کاریں سڑک پر ۔۔
نئی کار فائنانسنگ کے لئے بینکوں کی خدمات لان کی صورت میں موجود ہیں جبکہ کچھ سال پہلے تک جب بینکوں کی شرائط بہت نرم تھیں اس وقت ایک دن میں تین سو سے ساڑھے تین سو نئی کاریں سڑکوں پر آرہی تھیں۔
ایک اور حیرانی۔۔!!
کاریں تیار کرنے والے ادارے’ٹیوٹا پاکستان‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر سلیم گوڈیل نے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’عام گاڑیوں کی بات ہی چھوڑ دیجئے شہر میں اب بلٹ پروف گاڑیوں کی ڈیمانڈ بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ، ایک بلٹ پروف گاڑی کی تیاری پر 40لاکھ سے ایک کروڑ 20لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ اگر اس قیمت کو گاڑی کی مجموعی قیمت میں جمع کرلیا جائے تو یہ رقم ایک عام آدمی کے لئے حیران کن اور اس کی آنکھیں خیرہ کردینے کے لئے کافی ہیں۔‘