امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر جمعرات کو غیر اعلانیہ دورے پر عراق پہنچے ہیں جہاں ان کا ملک شدت پسند گروپ داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں کی قیادت اور زمینی فوج کو تربیت فراہم کر رہا ہے۔
امریکی وزیر بغداد میں وزیراعظم حیدر العبادی اور اپنے عراقی ہم منصب خالد العبید کے علاوہ دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے۔
اس دورے میں کارٹر سنی رہنماؤں سے بھی ملیں گے۔ امریکہ سنی قبائل کو داعش کے خلاف برسر پیکار ہونے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
عراق آمد سے قبل انھوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جہاں رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی داعش سے متعلق امور زیر بحث آئے تھے۔
ایش کارٹر نے کہنا تھا کہ سعودی عرب کے رہنماوں نے انھیں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تاریخی معاہدے کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
کارٹر نے بدھ کو سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز، اپنے سعودی ہم منصب محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے جدہ میں ملاقاتیں کیں، جس کے بعد انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ سعودی قیادت نے تہران سے معاہدے کی توثیق کی ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی پر بند کمرے میں ہونے والی ان ملاقاتوں کی وڈیوتو دکھائی لیکن ان کے بعد کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی کیونکہ عموماً سعودی رہنما پریس سے سوال و جواب نہیں کرتے۔
امریکی وزیر دفاع نے صحافیوں کو بتایا کہ "بادشاہ اور وزیر دونوں ہی نے ایرانی جوہری معاہدے کی حمایت کا اعادہ کیا اور پھر ہم نے ایران اور داعش سے متعلق دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔"
انھوں نے بتایا کہ سعودی فرمانروا متوقع طور پر آئندہ موسم خزاں میں امریکہ کا دورہ کریں گے۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کے بعد 14 جولائی کو ایک معاہدے پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن سعودی عرب کی طرف سے نا تو باضابطہ طور پر ’ایران جوہری معاہدے‘ کی مذمت کی گئی اور نا ہی اس کی تائید۔
تاہم حالیہ دنوں میں ریاض میں حکام کے حوالے سے ایسی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں جن میں یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ ایران خطے میں عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے۔
ایش کارٹر کا کہنا تھا کہ سعودی رہنماوں کی طرف سے صرف ایران کے جوہر معاہدے پر کاربند رہنے کی تصدیق کرنے کے لیے بین الاقوامی معائنہ کاروں کی صلاحیت اور کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں پابندیوں کے دوبارہ نفاذ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
امریکی وزیر دفاع اس تاریخی معاہدے پر اپنے خلیجی اور عرب اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں۔ رواں ہفتے ہی انھوں نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا جس کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس معاہدے کے سخت خلاف ہیں۔