امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے سعودی عرب کی اس پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے کہ جس میں اس نے امریکہ کی زیر قیادت شام میں کسی بھی زمینی کارروائی میں شامل ہونے کا اظہار کیا ہے۔
کارٹر کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرف سے سرگرمیوں میں اضافے سے داعش کے خلاف امریکہ کو اپنی لڑائی تیز کرنے میں آسانی ہو گی۔
نیواڈا میں نیلس کے فضائی اڈے پر صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "اس طرح کی خبر بہت خوش آئند ہے۔"
امریکی وزیر دفاع کے بقول وہ آئندہ ہفتے برسلز میں اپنے سعودی ہم منصب سے ملاقات میں زمینی فوج کی پیشکش پر تبادلہ خیال کے منتظر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سعودی حکومت نے داعش کے خلاف لڑائی میں مزید کارروائیاں کرنے پر رضامندی کا اشارہ دیا ہے۔
"مثال کے طور پر وہ (سعودی عرب) بعض دیگر مسلم ممالک کو اس لڑائی میں شامل ہونے کا کہنے میں مدد دے سکتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی کہ عراق اور شام کی آبادیاں دوبارہ کسی عسکری گروپ کو وجود میں آنے سے روکنے کے قابل ہوں۔"
ایش کارٹر نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے برسلز میں ہونے والی ملاقات کو داعش کے خلاف لڑائی میں تیزی کے وسیع الجہت تعاون حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
سعودی عرب کے وزیر دفاع کے ایک مشیر نے جمعرات کو کہا تھا کہ اگر امریکہ کی زیر قیادت اتحاد شام میں زمینی کارروائی شروع کرتا ہے تو ان کا ملک اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔
العربیہ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بریگیڈیئر جنرل احمد اسیری کا کہنا تھا کہ سعودی عرب 2014ء سے شام میں داعش کے خلاف امریکی اتحاد کی لڑائی کا ایک متحرک رکن چلا آ رہا ہے اور اس مشن کے دوران اس نے 190 سے زائد فضائی کارروائیاں کی ہیں۔
ان کے بقول سعودی عرب، جو کہ اپنے اتحادیوں کی قیادت کرتے ہوئے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف بھی برسرپیکار ہے، کا ماننا ہے کہ داعش کے خلاف فتح کے لیے اتحاد کو فضائی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ زمینی آپریشنز کی بھی ضرورت ہے۔
"اگر اتحاد کی قیادت کی طرف سے اتفاق کیا جاتا ہے تو سلطنت (سعودی عرب) ان کوششوں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ فضائی کارروائیاں مثالی حل نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ زمینی کارروائی بھی ضروری ہے۔"