بحیرۂ روم کے ساتھ واقع ترکی کے جنوبی ساحلی علاقوں کے جنگلات میں درجنوں مقامات پر گزشتہ ہفتے لگنے والی آگ پر قابو پانے کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔
آگ کے نتیجے میں اب تک آٹھ افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق جنگلات میں لگنے والی آگ کی وجہ سے بعض رہائشی علاقے اور ہوٹل بھی خالی کرالیے گئے ہیں۔
اٹھائیس جولائی کو جنگلات میں لگنے والی آگ کے بعد ہزاروں افراد کو ملحقہ علاقوں سے منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ مقامی ٹیموں کے ساتھ روس، یوکرین، ایران اور آذر بائیجان نے بھی فائر فائٹرز ترکی روانہ کیے ہیں۔
ترکی کے وزیرِ جنگلات پیک دیمیرلی کے مطابق کم ازکم 13 طیارے، 45 ہیلی کاپٹرز، ڈرونز اور 828 آگ بجھانے والی گاڑیاں آگ بجھانے کی کوششوں میں شریک ہوئیں۔
گرم موسم اور خشک ہواؤں کے باعث یورپ کے بحیرۂ روم سے متصل خطے کے ممالک کے جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ اس وقت یورپ میں سسلی، مغربی یونان، ترکی کے مغرب میں ایجیئن کا خطہ آتشزدگی سے متاثر ہیں۔
یورپ کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے سب سے زیادہ ترکی متاثر ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ مختلف مقامات پر آگ پر قابو پالیا گیا ہے لیکن کئی سیاحتی مقامات تاحال خطرے کی زد میں ہیں۔
اس کے علاوہ آئندہ دنوں میں گرمی کی شدت میں اضافے کی پیش گوئی کے باعث امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں دشواری کا سامنا ہوگا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے ترکی کی وزارتِ جنگلات و زراعت کے حوالے سے بتایا تھا کہ 32 صوبوں کے جنگلات میں بدھ سے آگ بھڑکنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اس پر قابو پانے کی کوششوں کے نتیجے میں 117 مقامات پر آگ بجھائی جا چکی ہے۔
آگ کیوں لگی؟
عام طور پر خشک موسم، گرمی کی شدت جیسے فطری اسباب کو جنگل میں آگ لگنے کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جنگل میں پکنک کے لیے آنے والوں کے بنائے گئے الاؤ سے بچ جانے والے انگارے یا سگریٹ کے شعلے سے بھڑکنے والی آگ بھی بڑے پیمانے پر جنگلات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ترکی کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے متعلق زراعت اور جنگلات کے وزیر بیکر پک دیمیرلی کے ابتدائی بیان میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ صوبہ انطالیہ کے علاقے مانوگیٹ میں شدید گرمی اور تیز ہواؤں کے دوران آگ لگنے کے واقعات پیش آئے۔ اس کے بعد ضلع آقسیکی میں بھی کئی مقامات پر آتشزدگی ہوئی۔
لیکن بعدازاں ترک حکام کی جانب سے آتشزدگی میں کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے) کے عسکریت پسندوں کے ملوث ہونے کا شبہہ بھی ظاہر کیا گیا۔
ترکی، امریکہ اور یورپی یونین 'پی کے کے' کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔ اس گروہ نے 1984 میں ترکی کے اندر کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور جنوب مشرقی ترکی میں ان کی مسلح شورش سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کے مطابق صدر رجب طیب ایردوان نے جنگلات میں لگنے والی آگ سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کریں گے۔ اگرچہ آگ مختلف مقامات پر لگی ہے لیکن ماگویٹ سے مارمس اور بدروم تک ایک ہی وقت میں یہ واقعات رونما ہوئے۔
پی کے کے نے حالیہ واقعات کی ذمے داری قبول نہیں کی اور نہ ہی ترک حکومت کی جانب سے اس تنظیم کے ان واقعات میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ لیکن ترک خبر رساں ادارے 'ٹی آر ٹی' کے مطابق پی کے کے ماضی میں ایسی کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔
'جنگلات میں آگ عالمی مسئلہ ہے'
کوئی اطلاع تیزی سے پھیل جائے تو اس کے لیے اردو میں ایک ضرب المثل ہے کہ فلاں بات 'جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی'۔
یہ ضرب المثل دراصل جنگلات میں ہونے والی آتشزدگی کے تیز رفتاری کا پتا دیتی ہے۔ عام طور پر جنگلات میں آگ لگنے کے جو اسباب بیان کیے جاتے ہیں ان میں سے خشک موسم، گرمی کی شدت یا انسانی غفلت وغیرہ بہت عام ہیں۔ اس کے علاوہ تیز ہواؤں کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔
البتہ ماہرین کا خیال ہے کہ جنگلات میں بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے واقعات میں ماحولیاتی عوامل کا کردار بنیادی ہے اور یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 1998 سے 2017 کے درمیان جنگلات کی آگ اور آتش فشانی سرگرمیوں کے نتیجے میں 62 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور اس عرصے کے دوران 2400 ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
رواں سال امریکہ کی 12 ریاستوں میں دس لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ جنگلات کی آگ کی لپیٹ میں رہا۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں مجموعی طور پر آگ سے متاثرہ رقبہ کئی لاکھ ایکڑ سے تجاوز کر چکا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرو لوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران سامنے آنے والی تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی میں اضافے سے جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے 'سائنس بریف' کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ 116 سائنسی مقالے موسمیاتی تبدیلیوں اور جنگلات میں آگ بھڑکنے کے خطرات میں تعلق کو ثابت کرتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق لندن اسکول آف اکنامکس میں ماحولیاتی جغرافیہ کے شعبے سے وابستہ پروفیسر تھامس اسمتھ کا کہنا تھا کہ جنگلات میں آگ لگنے کے موسم طویل ہوتے جارہے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ خراب لینڈ مینجمنٹ کو بھی جنگلات میں آتشزدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
جنگلات میں لینڈ مینجمنٹ سے مراد یہ ہے کہ وہاں مردہ پودوں کی باقیات اور خشک پتوں کی صفائی کی جائے اور منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے درختوں اور بوٹیوں کو تلف کر دیا جائے جو آگ کے تیزی سے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔
پہلی چنگاری
جنگل میں آگ کی ابتدا کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے تین بنیادی اجزا لازم ہیں۔ پہلی چنگاری، ایندھن اور ہوا یعنی آکسیجن۔
امریکہ کے محکمۂ زراعت کی ویب سائٹ پر دست یاب ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنگلات میں 85 فی صد آگ لگنے کے واقعات انسانوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
اس میں جنگلات میں بھڑکائے گئے الاؤ، باقیات جلانے، آلات میں ہونے والی خرابی، سگریٹ بھجانے میں غفلت اور آتشزدگی کے ارادے سے آگ بھڑکانے کے واقعات شامل ہیں۔
کئی مرتبہ آسمانی بجلی گرنے سے بھی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔
ان میں سے کسی بھی سبب سے بھڑکنے والی پہلی چنگاری کے بعد جنگل میں موجود درخت، گھاس، جڑی بوٹیاں، خشک پتے اسے ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
اس طرح بھڑکنے والی آگ کتنی تیزی سے پھیلتی ہے اس کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ جنگل میں موجود پیڑ پودوں میں نمی کی مقدار کتنی ہے۔ خشک سالی کے باعث جنگلات میں اگر درخت اور پودے سوکھ چکے ہیں تو ایسی صورت میں وہ تیزی سے آگ پکڑتے ہیں۔
آگ پھیلتی کیسے ہے؟
جنگل میں لگنے والی آگ کے پھیلاؤ کا تعلق موسم اور علاقے کے ماحول سے بھی ہوتا ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ ہفتے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کئی مرتبہ کسی جنگل میں ایسے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں جو آگ تیزی سے پکڑتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی شدت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
جنگل میں لگی آگ کے تیزی سے پھیلنے میں تیز ہوائیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر تیز ہوا کے ساتھ آگ کو تازہ آکسیجن مل رہا ہو تو آگ کے شعلے مزید بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہوا کے ساتھ اس کی چنگاریاں بھی تیزی سے اڑ کر دیگر مقامات پر آگ لگنے کا سبب بنتی ہیں۔
جنگلات کی آگ اور حملے
ماہرین اور ماحولیاتی تحفظ کے کارکنان کے نزدیک کئی مرتبہ کسی غیر قانونی سرگرمی کا سراغ مٹانے کے لیے بھی جنگلات میں آگ لگائی جاتی ہے یا کئی مرتبہ آگ لگنے کے بعد متاثرہ علاقے کو صاف کرنے کی آڑ میں لکڑی کے حصول کے لیے زمین کو قابلِ کاشت بنایا جاتا ہے۔
دو ہفتے قبل سائبیریا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے متعلق ایک رپورٹ میں مقامی سماجی کارکنان نے آگ کو چینی مارکیٹ میں لکڑی کی کھپت سے جوڑا تھا اور چین کو لکڑی کی برآمد روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
حکام اس مسئلے کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں تاہم دور دراز علاقوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کو مشکل عمل قرار دیتے ہیں۔
حال ہی میں ترکی نے بھی اپنے جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات میں مبینہ طور پر کرد عسکریت پسند گروہ کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا لیکن اس حوالے سے کوئی شواہد سامنے نہیں آسکے ہیں۔