فروری کا آغاز ہوتے ہی سعودی عرب میں کپڑوں کے اسٹورز پر سرخ ملبوسات اب نمایاں کرکے رکھے جانے لگے ہیں۔ رفتہ رفتہ سعودی عرب میں ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے البتہ ایک چیز کی کمی ہے کہ کوئی اس تہوار کا نام لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ویلنٹائن ڈے پر تحائف کی خریداری سعودی نوجوانوں میں عام ہے اور اس رجحان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے البتہ کہیں 'ویلنٹائن' کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق دارالحکومت ریاض میں ایک شاپنگ مال میں کام کرنے والے سیلز پرسن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انتظامیہ نے ہمیں سرخ ملبوسات اور زیرِ جامہ کو ڈسپلے ونڈوز پر سجانے کی ہدایت کی تھی۔
سعودی عرب کو قدامت پسند ریاست قرار دیا جاتا ہے وہاں صرف اسلامی اور قومی تہوار ہی منائے جاتے ہیں۔ اب سرخ ملبوسات کی نمائش سعودی عرب میں آنے والی تبدیلیوں کا پتا دیتی ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب میں مذہبی پولیس ویلنٹائن ڈے کے تحائف کی فروخت کرنے اور 14 فروری کو سرخ لباس پہننے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرتی تھی۔
ویلنٹائن ڈے کے آغاز سے متعلق مختلف تاریخی آرا پائی جاتی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسے محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
کیا سعودی عرب بدل رہا ہے؟
گزشتہ چند برس کے دوران سعودی عرب کو معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے لیے پر کشش بنانے کے لیے کئی سماجی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔حکومت نے مذہبی پولیس کا عمل دخل محدود کر دیا ہے اور خواتین کو مزید حقوق دیے جا رہے ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دی گئی ہے اور ماضی کے برخلاف اب وہ سادہ سیاہ عبایہ میں کچھ رنگ بھی شامل کرسکتی ہیں۔
ان تبدیلیوں کے ساتھ سعودی عرب میں حکومتی پالیسیوں کے مخالفین اور خواتین کی آزادی کی کارکنان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔
'کوئی نام نہیں لیتا!'
اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر' اے ایف پی 'سے بات کرتے ہوئے ملبوسات کے اسٹور پر ایک خاتون سیلزپرسن کا کہنا تھا کہ اب اطمینان کے ساتھ سرخ ملبوسات نمایاں کر کے دکانوں کے باہر سجائی جا سکتی ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر کئی گاہک سرخ ملبوسات طلب کرتے ہیں۔ اس دوران قیمتوں میں رعایت بھی دی جاتی ہے البتہ اسے ویلنٹائن ڈے کے لیے خصوصی پیش کش کا نام نہیں دیا جاتا۔
سرخ ملبوسات اور خاص طور پر خواتین کے زیرِ جامہ کی دکانوں پر نمائش کا منظر کئی لوگوں کے لیے اب بھی جھنجھلاہٹ کا باعث ہے کیوں کہ اس سے قبل اس طرح ان کی سجاوٹ کی اجازت نہیں تھی اور ان کی فروخت پسِ پردہ ہی ہوتی تھی۔
عبایہ میں اپنا چہرہ ڈھاپنے ایک سعودی خاتون کا کہنا تھا کہ وہ یہ سب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس سےالجھن ہوتی ہے البتہ ایسے لوگ ہیں جنھیں یہ پسند ہے اور انہیں اپنی پسند و ناپسند کی آزادی ہے۔
ایک اور سیلز ویمن خلود نے اپنے پورا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ پہلے لوگ ویلنٹائن ڈے نہیں مناتے تھے البتہ اب منانے لگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں میں سرخ ملبوسات کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور ان کی فروخت پر بھاری منافع ہونے لگا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف دکانوں پر پرفیومز، میک اپ کے اشیا پر خصوصی رعایت دی جاتی ہے اور گفٹ اسٹورز پر سرخ دلوں کے نشان اور تحائف ویلنٹائن ڈے کا نام لیے بغیر سجائے جاتے ہیں۔
ریما القحطانی نامی 22 سالہ ایک خریدار کا کہنا تھا کہ سعودی سوسائٹی بتدریج ویلنٹائن ڈے کو تسلیم کر رہی ہے البتہ ابھی تک اس کا نام نہیں لیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دن خاموشی سے کیفے یا ہوٹلوں میں منایا جاتا ہے۔ امید ہے کہ آنے والے برسوں میں اس دن کو مزید توجہ حاصل ہو گی۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔