کراچی میں روز بہ روز خراب ہوتی امن و امان کی انتہائی سنگین صورتحال شہریوں کو ذہنی مسائل سے دوچار کررہی ہے۔ ذہنی و نفسیاتی ڈاکٹرز اور ماہرین کے مطابق بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات سے سب سے زیادہ نوجوان اور اس کے بعد خواتین و بچے نفسیاتی طور پر بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
کراچی کے ایک نفسیاتی اسپتال کے منتظم اعلیٰ ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر سید مبین کے مطابق کراچی کے اکثر شہری مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں اور ہرگزرتے دن کے ساتھ ساتھ ان میں احساس عدم تحفظ پیدا ہوتاجارہا ہے۔
کراچی کا نوجوان طبقہ بدامنی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ ایک جانب تو بدترین امن و امان کے سبب بے روزگاری ، غربت اور بھوک کا خوف اسے گھیرے ہوئے ہے تو دوسری جانب جن کے پاس نوکری یا روزگار نہیں ہے وہ مستقبل سے انتہائی مایوس اور پریشا ن ہیں۔
ڈاکٹر مبین نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ لوگ انجانے خوف کی وجہ سے ہزار مسائل کے باوجود اپنا حق مانگنے سے گریزاں ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ایسا کریں گے تو مہنگائی میں اپنا اور بچوں کا پیٹ کیسے پالیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرتشدد واقعات سے پاکستانی معاشرے میں بے حسی بڑھ رہی ہے جس کا خوفناک مشاہدہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں کوئی شخص قتل ہو جاتا ہے تو عام شہری یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ وہ خود تومحفوظ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مبین کا کہنا تھا کہ کراچی میں جس طرح انسانی اعضاء سے بھری بند بوریاں اور گلے کٹی لاشیں مل رہی ہیں ان کے پیچھے بھی شاید یہ نفسیاتی مرض ہے کہ' خود کو زندہ رکھنے کے لئے دوسرے کو مار دو، ورنہ وہ تمہیں مار دے گا'یہی وجہ ہے کہ بسوں میں عام انسانوں کو زندہ جلانا بھی ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں۔
ڈاکٹر مبین کے مطابق شہریوں کی اکثریت اگر چہ کراچی چھوڑنا نہیں چاہتی لیکن پرتشدد واقعات کے بعد وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کسی پر امن جگہ کی تلاش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی کے حالات شہریوں کی ازدواجی زندگی پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں جاری خونریزی سے بچے ذہنی طور پر کمزور ہو رہے ہیں۔ ان کے ذہن تعلیم کے بجائے جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ گھریلو خواتین پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلے ہوئے مردوں کے انتظار میں چڑچڑی سی رہنے کے علاوہ مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔