پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے بدھ کو میانوالی کے قریب چشمہ تھری جوہری بجلی گھر کا افتتاح کیا۔
340 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا یہ جوہری بجلی گھر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور ’چائنہ نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن‘ کے اشتراک سے تیار کیا گیا، اس علاقے میں چین کے تعاون سے تعمیر کیاجانے والا یہ تیسرا جوہری بجلی گھر ہے۔
اس سے قبل چین کے تعاون سے اسی علاقے میں قائم کیے گئے چشمہ ون اور چشمہ ٹو نامی دو بجلی گھر لگ بھگ 600 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔
چشمہ تھری جوہری بجلی گھر کے افتتاح کے موقع پر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ محمد نعیم نے کہا کہ پاکستان نے 1972 میں کراچی میں 137 میگا واٹ کا پلانٹ لگا کر سول نیوکلئیر پاور پروگرام کا آغاز کیا تھا اور ان کے بقول یہ سفر اب بھی کامیابی سے جاری ہے۔
’’چشمہ فور جوہری بجلی گھر بھی 2017 کے وسط تک بجلی کی پیدوار شروع کر دے گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ کراچی میں قائم کیے گئے جوہری بجلی گھر کے لیے پاکستان خود ایندھن تیار کر رہا ہے لیکن دیگر نیوکلیئر پاور پلانٹس کے لیے چین سے ایندھن درآمد کیا جا رہا ہے۔
’’ہمیں چشمہ کے جوہری بجلی گھروں کے لیے ایندھن چین سے درآمد کرنا پڑتا ہے، مستقل قریب میں ہمیں جوہری پاور پلانٹس کے لیے بہت سا ایندھن درکار ہو گا، ہم نے جوہری ایندھن بنانے میں خود کفالت کے لیے بنیادی مہارت حاصل کر لی ہے۔‘‘
اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جوہری توانائی کے منصوبوں سے ملک میں صارفین کو نسبتاً سستی بجلی فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔
’’چشمہ ون اور چشمہ ٹو نیو کلیئر پاور پلانٹ کے شاندار ریکارڈ نے پاکستان میں ایک طاقتور قابل عمل نیوکلئیر پاور پروگرام کی بنیاد رکھ دی ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ’’چشمہ اور مظفر گڑھ کے مقام پر 1100 میگاواٹ پیدواری صلاحیت کے تین مزید نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تعمیر کا منصوبہ بھی بنایا جا چکا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ کراچی میں بھی ’کے ٹو‘ اور ’کے تھری‘ نامی جوہری بجلی گھر بنائے جا رہے ہیں اور حکومت کا کہنا ہے کہ ان کی تکمیل کے بعد 2030 تک نیشنل گرڈ میں8,800میگاواٹ بجلی شامل ہو سکے گی۔
پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ چشمہ تھری سمیت ملک میں قائم تمام ’نیوکلئیر پاور پلانٹس‘ کے تحفظ کے لیے جوہری توانائی کے عالمی نگران ادارے ’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘ یعنی ’آئی اے ای اے‘ کے وضع کردہ معیار کے مطابق اقدامات کیے گئے ہیں۔
تاہم بعض حلقوں کی طرف سے جوہری بجلی گھروں کی تعمیر پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔
فزکس کے ماہر اور تجزیہ کار اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دنیا میں جوہری بجلی گھروں میں ہونے والے حادثات کے بعد ان کے تحفظ کے حوالے سے خدشات برقرار رہیں گے۔
اُن کے بقول ان بجلی گھروں میں ہونے والی کوئی بھی تکنیکی خرابی مقامی آبادی کے لیے ایک بہت بڑی آفت ثابت ہو سکتی ہے۔
’’ہم لوگوں کو (جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کا اقدام) بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیئے، ٹھیک ہے جب تک حادثہ نہیں ہے تو ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اگر کبھی حادثہ ہو گیا تو نقصانات اتنے شدید ہوں گے جن کو ہمیں دہائیوں تک برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے، خاص طور پر ہوا سے بجلی کی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کار کرنی چاہیئے۔
بدھ کو چشمہ تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ محمد نعیم نے ایک بار پھر کہا کہ جوہری بجلی گھروں کے منصوبوں کے دوران ان کو محفوظ بنانا اوالین ترجیح ہوتی ہے۔
پاکستان کی حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ 2050ء تک ملک میں مجموعی طور پر 40 ہزار میگاواٹ بجلی جوہری توانائی سے حاصل ہو سکے گی۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے حالیہ برسوں میں بجلی کی پیدوار کے بہت سے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔