چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اتوار کے روز پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں صاف پانی، اسپتالوں کے فضلے، فوڈاتھارٹی، زینب قتل کیس اور سڑکوں کی بندش کے کیسوں کی از خود سماعت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے استفسار کرتے ہوئے کہا، ’’ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ آگے کیا کرنا ہے۔ اسپتالوں کا فضلہ دریائے راوی میں پھینکا جا رہا ہے۔ آپ نے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کیوں نہیں لگائے؟‘‘
اس کے جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ وہ بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ صوبے کے عوام کی پوری خدمت کر سکیں۔ وہ بھی انسان ہیں، ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت دے دیں ہم پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے۔
شہباز شریف نے مزید کہا، ’’ہم نے آزاد عدلیہ کے لیے تحریک چلائی ہے اور ملک کے کیے آزاد عدلیہ بہت ضروری ہے۔‘‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعت میں بھی یہی سوچ نظر آنی چاہئیے۔ ایک آپ ہی تو ہیں جو ہماری عزت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ الیکشن آزاد اور شفاف ہونگے۔ آزاد اور منصافانہ انتخاب میں آپ کی پارٹی جیتی تو ہم آپکو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
صاف پانی سے متعلق عدالتی معاون نے دریائے راوی میں فضلہ پھینکے جانے کی رپورٹ پڑھنا شروع کی تو چیف جسٹس نے شہباز شریف کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ جب تک رپورٹ پڑھی جا رہی ہے ،آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ اس پر شہباز شریف نے کہا ، نہیں وہ ایسے ہی ٹھیک ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو دنوں سے صحت اور پانی سے متعلق کیسوں کی سماعت کر رہے ہیں، لیکن محکموں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اسپتالوں کی ایمرجنسی کو بھی ٹھیک کرنا ہے جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ‘وہ ٹھیک ہیں‘۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں پھر ابھی چل کر دیکھ لیتے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت دے دیں، آپ تو میرے پیچھے ہی پڑ گئےہیں جس پر عدالت میں قہقہہ بلند ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا، ’’ہم آپ کے پیچھے نہیں پڑے۔ یہ نہ ہو کہ آپ کی پارٹی سے ہی کوئی آپ کے پیچھے پڑ جائے۔‘‘
دوران سماعت چیف جسٹس نے زینب قتل کیس کا ملزم پکڑے جانے پر انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کی کوششوں کو سراہا۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے لاہور میں سڑکوں کی بندش سے متعلق استفسار کیا جس پر میاں ثاقب نثار نے عدالت کو بتایا کہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق دہشتگردی کے ممکنہ خطرات پر انہیں بند کیا گیا ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنے وزیراعلیٰ اور وزراء کو ڈرا کر مت بٹھائیں۔
چیف جسٹس نے کہا، ’’شہباز شریف عوامی اور سیاسی شخصیت ہیں۔ آپ کو تو لوگوں میں جانا اچھا لگا ہو گا۔ عوام کے لیے راستے بند کرنے کی بجائے سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔‘‘
چیف جسٹس آف پاکستان نے چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کو اتوار کی رات بارہ بجے تک سی ایم سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن، آئی جی آفس، مسجد القادسیہ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش سمیت شہر بھر سے رکاوٹیں ہٹانے کے احکامات جاری کر دئیے۔