ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں کم عمری کی شادی وقتی اور عارضی مسائل کا حل سمجھی جاتی ہے۔ اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر نسل در نسل چلنے والے قرضوں کو اتارنے کے لئے بھی لڑکی کو کم عمری میں ہی ’شادی کی بھٹی‘ میں جھونک دیا جاتا ہے۔
اپنے لڑکوں کے بدلے دوسرے کی لڑکیوں کو ’وٹے سٹے’ کے تحت بغیر کچھ سوچے سمجھے ان کی شادی کردی جاتی ہے۔ جرگے یا پنچایت کے فیصلے بھی ماں باپ کو کم عمر بچیوں کی شادی پر مجبور کردیتے ہیں۔ ’بڑی عمر میں اچھے رشتے نہ ملنے کے خوف‘ پر بھی لڑکیاں ہی قربان کردی جاتی ہیں۔
یہ اور ایسی بہت ساری دیگر وجوہات ہیں جن کے سبب پاکستان میں اور خاص کر سندھ میں کم عمری کی شادی قانون کی موجودگی کے باوجود آج تک نہیں رک سکی بلکہ وقت کے ساتھ اس رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی۔
سندھ اسمبلی چائلڈ میرج ریسٹرنٹ ایکٹ 2013 منظور کرنے والی پہلی اسمبلی تھی، جس کی خلاف ورزی کی صورت میں دلہا دلہن سمیت والدین کو تین سال قید کی سزا اور بھاری جرمانے کی سزا رکھی گئی۔ لیکن، اس قانون کا سختی سے نفاذ آج تک نہیں کیا جا سکا، جس کے باعث صوبے میں آج بھی بچوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔
ملکی اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی شرح آج بھی بہت زیادہ ہے اور اس پر ابھی تک بندش نہیں لگ سکی۔
رونامہ 'ڈان' کی ایک رپورٹ کے مطابق، ضلع ٹنڈوالہیار کے رہائشی ویرو کا کہنا ہے کہ جب میری شادی ہوئی اس وقت میری اور میری بیوی کی عمر 10 سال تھی۔ آج میں پانچ بچوں کا باپ ہوں۔ ویرو نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بیٹے اور بیٹی کی شادی 10 اور 12 سال کی عمر میں کر دی تھی۔
ویرو نے اپنی برادری کے فیصلے کو مقدم جانا اور بچوں کی وٹے سٹے یا ’بدلو‘ رسم و روایت کے مطابق، شادی کر دی ۔’بدلو‘ کے تحت بیٹوں کے بدلے بیٹیوں کی شادی کی جاتی ہے۔
ویرو کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا مٹھو جو اب15 سال کا ہے شادی کے وقت وہ پانچویں کلاس میں تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ اسکول نہیں گیا، جبکہ اس کا داماد دھرمی نے کبھی اسکول کا چہرہ تک نہیں دیکھا۔
ویرو کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں کوئی بھی اس روایت کے خلاف جانے یا توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
رواں سال کے اختتام پر ویرو اپنے دوسرے13 سالہ بیٹے نارائن کی شادی کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے بقول، اس بار وہ ایسا مجبوراً کر رہا ہے۔ ویرو کی خواہش ہے کہ نارائن کی شادی کے بجائے تعلیم حاصل کرے۔ لیکن، سماجی دباؤ اور برادری کے سخت اصولوں کے پیش نظر وہ ایسا نہیں کر سکتا۔
ویرو کا کہنا ہے کہ اگر ہم بچوں کی کم عمر شادیوں سے انکار کریں تو کمیونٹی بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ ہم پر جرمانہ بھی لگادے گی۔
ویرو جیسے درجنوں کیس ہیں جن میں وٹہ سٹہ کی شادی کو اس لئے بھی اچھا سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح خاندانی تعلقات مضبوط ہوں حالانکہ یہ شادی دلکش کم، دلفریب زیادہ ہے۔
برادری والے لڑکی کے والدین کو اس بات کا بھی یقین دلاتے ہیں کہ کم عمری میں شادی کر دینے سے وہ لڑکیوں کی ذمے داری سے بھی آزاد ہوجائیں گے۔
جس معاشرے یا برادری میں لڑکی بوجھ سمجھی جائے وہاں کم عمری میں شادی نہ کرنے کے فوائد سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ، اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں 21فیصد لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے۔
اگرچہ تعلیم ایک بنیادی جز ہے، جو کم عمر شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنے میں مدد فراہم کرے گا، اسی بات کے پیش نظر، سندھ حکومت کے 2017 اور 2018 کے بجٹ میں 24 فیصد رقم تعلیمی سہولیات میں بہتری کے لئے مختص کی ہے۔تاہم، یہ بات بھی اہم ہے کہ محض بجٹ میں تعلیمی سہولیات کے لئے رقم مختص کرنا اس صورت حال کی بہتری کے لئے کافی نہیں۔
ماہرین کے مطابق، اس مقصد کے لئے، تعلیمی اصلاحات میں بہتری لانا بھی لازمی ہے، جبکہ حکومت کو بھی کم عمری کی شادی کے قانون پر سختی سے عمل کرانا اشد ضروری ہے۔