حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی یاسمین رحمان کا کہنا ہے کہ آبادی اور غربت میں اضافے کے باعث پاکستان میں بچوں کے خلاف جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک مجوزہ قانون پارلیمان میں زیر غور ہے۔
یاسیمن رحمان، جو کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کیمٹی برائے انسانی حقوق کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ محدود وسائل کے باعث خاص طور پر غریب خاندان اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا پاتے اور ان بچوں کا زیادہ وقت گلی محلوں میں گھومنے پھرنے میں گزرتا ہے جو انہیں جرائم پیشہ عناصر کے لیے ایک آسان ہدف بناتا ہے۔
’’بچوں کے ساتھ اس طرح کے جرائم ایک اہم مسئلہ ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے ملک کی ترقی بھی متاثر ہوتی ہے‘‘۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ قانون سازی کے ذریعے بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے گا۔
یاسیمن رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد بچوں اور خواتین کی بہبود کی براہ راست ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، لیکن صوبوں کی سطح پر اس سلسلے میں قوانین سازی پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان حالات میں وفاق کی سطح پر بچوں کو جنسی تشدد اور دیگر جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے۔
’’چائلڈ پروٹیکشن کا قانون قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھیجا گیا ہے کمیٹی اس قانون کے حوالے سے جلد سفارشات مرتب کر کے ایوان کو بھیج دے گی‘‘۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنی والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے حوالے سے ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم میں جنسی تشدد سرفہرست ہے جس میں گزشتہ سال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2011ء کے دوران ملک بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے تقریباً 2300 سے زائد مقدمات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ جو گزشتہ سال کے مقابلے میں اڑھائی فیصد زائد ہیں ۔
غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کو تحفظ دینے اور جنسی تشدد جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے نچلی سطح تک ایک مربوط نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ جس میں غربت میں کمی کی جائے اور بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے انہیں تعلیم اور صحت کی مناسب سہولیات فراہم کی جائیں.