جنوبی چلی میں ایک کلیسا کے حلقے میں جہاں بھی بشپ نظر آتا ہے وہاں لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ روایتی کیتھولک اجتماع نہیں۔
جب سے بشپ ہوان بیروس اوسورنو میں تعینات کیے گئے ہیں انہیں پچھلے دروازوں سے بھاگنا پڑتا ہے، شہر کے سب سے بڑے چرچ سے بحفاظت نکلنے کے لیے ہنگاموں سے نمٹنے والی پولیس کو بلانا پڑتا ہے اور اپنی نقل و حرکت کے لیے باڈی گارڈز اور پولیس کے کتوں سے مدد طلب کرنا پڑتی ہے۔
یہ اس بشپ کا معمول ہے جس کو مخالفین کی جانب سے بچوں سے جنسی تعلقات رکھنے والے چلی کے سب سے بدنام پادری کو بچانے کے لیے شدید مذمت کا سامنا ہے۔ تاہم بشپ بیروس سمجھتے ہیں کہ ان کے عوام سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
پوپ فرانسس کے بشپ بیروس کو 21 مارچ سے تعینات کرنے کے بعد چلی میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس تعیناتی کے بعد 1,300 چرچ اراکین، تیس پادریوں اور چلی کی پارلیمان کے تقریباً نصف اراکین نے پوپ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے خطوط لکھے ہیں۔
جنسی زیادتی کے الزامات
کم از کم تین افراد نے کہا ہے کہ جب پادری فرڈینینڈو کراڈیما نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ان سے جنسی زیادتی کی تو بیروس وہاں موجود تھے۔
کراڈیما پر ویٹیکن نے بچوں سے جنسی زیادتی کرنے پر 2011 میں پابندی عائد کر دی تھی اور حکم دیا تھا کہ وہ اپنی باقی زندگی راہباؤں کی ایک کانونٹ میں سماج سے دور گزاریں۔ بیروس کا کہنا ہے کہ اس کو کراڈیما کی زیادتیوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
مگر زیادتی کا شکار ہونے والے افراد، اس پر کام کرنے والی تنظیمیں اور قانون ساز اس تنازع کو پوپ کے لیے ایک آزمائش کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ پوپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پادریوں کی طرف سے جنسی استحصال سے سختی سے نمٹیں گے۔
12 اپریل کو پوپ کی جنسی استحصال پر مشاورتی کمیٹی کے ارکان پوپ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے روم گئے تھے۔
پوپ نے ابھی اس مسئلے پر عوامی سطح پر بات نہیں کی۔ تاہم مارچ میں ویٹیکن نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں بیروس کی تعیناتی کا دفاع یہ کہہ کر کیا تھا کہ بشپس کے اجتماع کو بیروس کی تعیناتی کے خلاف کوئی معروضی وجہ نہیں ملی۔
مگر سینتیاگو سے 820 کلومیٹر جنوب میں واقع اوسورنو میں کیتھولک افراد مظاہرے کر رہے ہیں اور ان کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
10 اپریل کو 600 افراد نے اسورنو کیتھیڈرل کے باہر کالی چھتریاں پکڑ کر مظاہرہ کیا۔ بقول ان کے کالا رنگ چرچ پر جنسی استحصال کے داغ کی علامت بن گیا ہے۔ اس مظاہرے میں کیتھولک سکول کے اساتذہ اور عام افراد نے شرکت کی۔
بشپ بیروس نے کہا ہے کہ ان کی 21 مارچ سے تعیناتی کے بعد سے حالات میں بہتری آئی ہے، تاہم انہوں نے انٹرویو کے لیے بار بار کی جانے والی درخواست رد کر دی۔