چین نے کہا ہے کہ اسے توقع ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک اپنے ملک کی 80 فیصد آبادی کو کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگا دے گا۔ چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ سے زیادہ ہے۔
ایسوسی ایٹڈپریس کے مطابق بدھ کے روز تک چین میں 70 کروڑ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگ چکی تھی۔ جب کہ زیادہ تر ویکسین مئی کے مہینے میں لگائی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چین میں روزانہ ایک کروڑ 90 لاکھ افراد کو ویکسین دی جا رہی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں امریکہ میں اپریل کے دوران، ویکسین لگانے کی مہم کے عروج میں روزانہ 34 لاکھ افراد کو ویکسین کے ٹیکے لگائے جا رہے تھے۔
تاہم چین کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہاں کتنے فی صد افراد کی ویکسین کی خوراکیں مکمل ہو چکی ہیں، کیونکہ چین کے حکام نے اس سلسلے میں ابھی تک اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
اطلاعات کے مطابق دارالحکومت بیجنگ کی 87 فی صد آبادی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لگ چکی ہے۔ بیجنگ میں ویکسین لگانے کی رفتار ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں کافی تیز بتائی جاتی ہے۔
غریب ملکوں کے لیے کرونا سے بچاؤ کے عطیات
دنیا کے غریب اور کم آمدنی کے ملکوں کو کرونا ویکسین فراہم کرنے کے اقوام متحدہ کے پروگرام کو ویکس کی بڑے پیمانے پر مالی مدد اور ویکسین کے عطیات دینے کے وعدے کیے گئے ہیں۔
بدھ کے روز اس سلسلے میں جاپان کی میزبانی میں ہونے والی ایک ورچوئل کانفرنس میں مختلف ملکوں نے اس پروگرام کے لیے دو ارب 40 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ جاپان نے 80 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ عطیے کا اعلان کرنے والے دوسرے ممالک میں کینیڈا، فرانس، سپین اور سویڈن شامل ہیں۔ دنیا کے متمول ملک اب تک کوویکس پروگرام کے ساتھ 9 ارب 60 کروڑ ڈالر کے وعدے کر چکے ہیں۔
کئی ملکوں نے کوویکس کو ویکسین کی لاکھوں خوراکیں عطیے میں دینے کا اعلان کیا ہے۔ بدھ کی ورچوئل کانفرنس میں 30 لاکھ خوراکیں دینے کے وعدے کیے گئے۔
امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس نے کانفرنس کو بتایا کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے موجودہ اور اگلے برس کے لیے چار ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اور جمعرات کو صدر بائیڈن نے ویکسین کے اپنے اسٹاک میں 8 کروڑ خوراکوں کے عطیے کا اعلان کیا۔
بل گیٹس اور میلنڈا گیٹس کی فاؤنڈیشن نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس سال دنیا کے غریب ترین 127 ملکوں میں بچوں کے لیے ویکسین کی دو ارب خوراکیں عطیہ کرے گی۔ یہ فاؤنڈیشن اب تک 7 کروڑ 70 لاکھ خوراکیں فراہم کر چکی ہے اور اپنے ہدف سے کافی پیچھے ہے۔
ورلڈ اولمپکس کرانے کی مخالفت
ایک ایسے وقت میں جب کہ جاپان کرونا وائرس کی ایک نئی لہر کی لپیٹ میں ہے، اولمپک کمیٹی جولائی کے دوران ٹوکیو میں ورلڈ اولمپکس منعقد کرانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ یہ مقابلے گزشتہ سال ہونے تھے مگر انہیں عالمی وبا کے پھیلاؤ کے باعث ایک سال کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔
اولمپک کمیٹی کو جاپان میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ مقابلے شروع ہونے سے محض چند ہفتے قبل 10 ہزار رضاکاروں نے وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے اولمپکس کے انتظامات سے اپنی خدمات واپس لے لی ہیں۔
ٹوکیو اولمپکس آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ توشیرو موتو نے بدھ کے روز کہا کہ رضاکاروں کی علیحدگی سے اولمپکس کا شیڈول متاثر نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ شائقین کو یہ مقابلے دیکھنے کے لیے آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ صرف کھلاڑی اور عہدے دار ہی اولمپکس ویلج میں داخل ہو سکیں گے۔
چھ ہزار ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے ایک گروپ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اولمپکس کو ملتوی کرانے کے لیے اپنا دباؤ ڈالے۔
حال ہی میں جاپان کے ایک اخبار نکی بزنس کی جانب سے کرائے گئے سروے کے نتائج پیر کے روز جاری کیے گئے جس کے مطابق 60%فی صد جاپانی اولمپکس مؤخر کرانے کے حق میں ہیں۔