بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ برس لداخ کی وادیٔ گلوان میں ہونے والے تصادم کو ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ 15 اور 16 جون کی شب ہونے والی اس جھڑپ میں 20 بھارتی فوج ہلاک ہو گئے تھے۔
واقعے کے بعد چین نے اپنی فوج کو پہنچنے والے نقصان کی تفصیلات نہیں دی تھیں، لیکن چند ماہ بعد چین نے اعتراف کیا تھا کہ اس جھڑپ میں اس کے بھی چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
سرحدی تنازع پر ہونے والی اس کشیدگی نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا اور سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا تھا جب کہ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات بھی متاثر ہو ئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ بھارت اور چین کے سرحدی تنازع کے 45 برسوں کے درمیان اب تک کا ناخوشگوار ترین واقعہ تھا۔
چین، بھارت کشیدگی کب کیا ہوا؟
دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان کشیدگی کا آغاز 10 مئی 2020 کو ہوا تھا۔ اس دن جنوبی سکم میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ہاتھاپائی ہوئی تھی۔
چھ جون کو دونوں ملکوں کے سفارت کاروں اور کمانڈرز کے درمیان میٹنگ ہوئی جس میں فریقین نے صورتِ حال کو سنبھالنے پر زور دیا۔
لیکن 16 جون کو پہلے خبر آئی کہ دونوں ملکوں کی افواج میں پھر جھڑپ ہوئی ہے جس میں فریقین کو نقصان اٹھانا پڑا ہے اور بھارت کے تین فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن اسی رات فوج کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ بھار ت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
مذاکرات کے 11 دور اور فوجیوں کی واپسی
اس کے بعد سے لے کر اب تک دونوں ملکوں کے درمیان اعلٰی فوجی کمانڈرز کی سطح کے مذاکرات کے 11 دور ہو چکے ہیں۔ ہر بات چیت میں فریقین کی جانب سے کشیدگی کم کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اور خصوصی نمائندوں کے درمیان بھی بات چیت ہو چکی ہے۔ دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں میں بات چیت کا اگلا دور کب ہو گا اس بارے میں صورتِ حال واضح نہیں ہے۔
باہمی مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے اپنی اپنی افواج کو متنازع پوزیشنز سے واپس لے جانے کا اعلان کیا اور رواں برس فروری میں چین نے پینگانگ سو جھیل کے شمالی و جنوبی کناروں سے اپنے فوجی ہٹا لیے اور ٹینکوں کو پیچھے کر لیا۔ لیکن اطلاعات کے مطابق دوسرے علاقوں میں تنازع اب بھی برقرار ہے۔
بعض علاقوں میں اب بھی بھارتی فوجیوں کو گشت کی اجازت نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق متنازع علاقوں سے فوجیوں کی واپسی کے کوئی اشارے نہیں ملے۔
معاہدے کے مطابق پیٹرولنگ پوائنٹ 14 کو ’نو پیٹرولنگ زون‘ قرار دیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے فوجی ڈیڑھ کلو میٹر پیچھے ہٹ گئے ہیں اور اس علاقے کو بفر زون قرار دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پیٹرولنگ پوائنٹ 14 پر چین کی مبینہ پیش قدمی پر بھارت نے اعتراض کیا تھا۔ اس کے بعد ہی دونوں میں تصادم ہوا تھا۔
بھارت کا اصرار ہے کہ اپریل 2020 میں سرحد کی جو صورت حال تھی اسے بحال کیا جائے اور اسٹیٹس کو یعنی سابقہ سرحدی پوزیشن کو نہ چھیڑا جائے۔ لیکن چین کا کہنا ہے کہ اس نے سرحدی صورتِ حال کو تبدیل نہیں کیا۔ وہ اس کا الزام بھارت پر عائد کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین 4000 کلو میٹر کی طویل سرحد متعین نہیں ہے اور دونوں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔
ایل اے سی پر تعمیرات
تجزیہ کاروں کے مطابق چین نے کئی علاقوں میں 'ایل اے سی' پر اپنی جانب متعدد مستقل اور عارضی تعمیرات کی ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں لمبے عرصے تک رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے بھی کئی تعمیرات کی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ایک برس سے 50 سے 60 ہزار بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے بھارت نے بھی طویل عرصے تک وہاں رہنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس سلسلے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) ونود بھاٹیہ کا یہ بیان قابل غور ہے کہ اگرچہ بعض متنازع علاقوں سے فوجیوں کی واپسی ہوئی ہے لیکن سابقہ سرحدی پوزیشن کی بحالی کا عمل ابھی بہت دور ہے۔
انہوں نے بعض میڈیا اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پر تعیناتی اور رسد کے لیے چار پانچ سال کا روڈ میپ ہے۔ اس مدت کے لیے جو بھی منصوبہ بنایا گیا تھا اسے گزشتہ ایک سال کے دوران مکمل کر لیا گیا ہے۔
موجودہ صورتِ حال
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں مرکز برائے چینی مطالعات میں معلم پروفیسر بی آر دیپک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لداخ میں دیپسانگ، گوگرا ہائٹس اور ہاٹس اسپرنگ میں اب بھی تنازع برقرار ہے اور ٹکراؤ کی صورت حال ہے۔
ان کے بقول ان علاقوں میں بھارت کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں یا تو گلوان کی مانند وہاں ایک بفر زون بنایا جائے اور چین سے کہا جائے کہ وہ پیچھے چلا جائے یا پھر دوسرے اقدامات کیے جائیں۔ لیکن وزارت خارجہ و دفاع کے بیانات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت اپریل 2020 کی صورتِ حال بحال کرانا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ مذکورہ تینوں علاقوں سے فوجیوں کی واپسی نہیں ہوئی ہے اور بھارت جہاں پہلے گشت کیا کرتا تھا اس کو چین نے بند کرا دیا ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گلوان وادی میں تصادم کے بعد کی صورت حال تاحال واضح نہیں ہے۔ بھارت نے اس بارے میں ابھی تک کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے منگل کو ایک بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ گلوان معاملے پر مکمل صورت حال عوام کے سامنے رکھے کیوں کہ عوام حقائق سے لاعلم ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ تاحال یہ واضح نہیں کہ چین بھارت کی سرحد کے اندر دراندازی کرنے میں کامیاب ہوا تھا یا بھارت نے وہ علاقہ واگزار کرا لیا تھا جس پر چین نے مبینہ طور پر قبضہ کر لیا تھا۔
باہمی تجارت پر اثر
اسد مرزا کے مطابق چین کے سرکاری اخبار 'گلوبل ٹائمز' کا دعویٰ ہے کہ گلوان میں بھارت کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس کا منفی اثر چین کی تجارت پر نہیں پڑا۔ کیوں کہ اس نے بھارت کے ساتھ ہونے والی تجارت میں خسارے کو امریکہ کے ساتھ تجارت بڑھا کر پورا کر لیا ہے۔
ادھر تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت نے چینی مصنوعات پر انحصار کو کم کرنے کے لیے کئی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کر دی۔ گزشتہ برس دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 88.5 ارب ڈالرز سے گھٹ کر 77.7 ارب ڈالرز تک آ گئی تھی۔
تجزیہ کاروں کہتے ہیں کہ اس ایک برس کے دوران دونوں ملکوں کے رشتے کافی خراب ہوئے ہیں اور باہمی تجارت پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔
پروفیسر دیپک بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھارت نے چین کے خلاف جو اقتصادی اقدامات کیے اس سے دونوں کی باہمی تجارت پر منفی اثر پڑا ہے۔
کرونا دور میں چینی اشیا کی درآمد
پروفیسر دیپک کے مطابق بھارت نے چین کی 200 سے زائد ایپس بند کر دیں۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کی سرمایہ کاری بھی فی الحال بند ہے۔ لیکن خاص طور پر کرونا کے دور میں مصنوعات کی درآمد جاری ہے۔
اُن کے بقول چین سے فارماسوٹیکل سیکٹر سے اشیا بھارت آ رہی ہیں اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اپریل میں چین سے بھارت میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز کی مصنوعات درآمد کی گئیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وینٹی لیٹرز، آکسی میٹر، تھرما میٹر وغیرہ زیادہ تر چیزیں چین سے آ رہی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ دنیا کے بعض دیگر ممالک کی طرح بھارت بھی چین پر انحصار کم کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے بھارت میں پی پی ای کٹس، ماسک اور دستانے وغیرہ چین سے آتے تھے لیکن اب وہ سب بھارت میں تیار ہونے لگے ہیں۔
پروفیسر دیپک کا اندازہ ہے کہ اس پورے معاملے کا بھارت کی تجارت پر منفی اثر ضرور پڑے گا۔ بھارت کی معاشی شرح نمو منفی اعداد میں چلی گئی ہے۔ اس کا اثر چین کی تجارت پر بھی پڑے گا کیوں کہ بھارت میں چین کی براہ راست سرمایہ کاری بند ہے۔
ان کے بقول کرونا وبا سے قبل بھارت میں چین کی دو ہزار سے زائد کمپنیاں کام کر رہی تھیں جن میں تقریباً دو لاکھ افراد کام کر رہے تھے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ کتنی کمپنیاں بند ہوئی ہیں اور کتنے لوگوں کا روزگار ختم ہوا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ باہمی تجارت میں ان کے بقول گراوٹ آئی ہے۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بھارت کی ایک حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ بھارت خود انحصاری کی جو مہم چلا رہا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے ملکوں پر اپنا انحصار کم کرے۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ اگر چہ بھارت کی اقتصادی کارروائیوں سے باہمی تجارت پر اثر پڑا ہے لیکن ابھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس ملک کو کتنا نقصان ہوا ہے۔
بین الاقوامی تناطر
تجزیہ کار گلوان وادی کے واقعہ کو بین الاقوامی تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ اسد مرزا کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ چین نے بھارت کو کواڈ گروپ میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے گلوان میں مبینہ دراندازی کی تھی۔
اُن کا کہنا ہے کہ بھارت پہلے ہی کواڈ میں شرکت کے لیے آمادگی ظاہر کر چکا تھا اور دنیا کے کئی ممالک چین کی بڑھتی سرگرمیوں کو روکنا چاہتے ہیں اور کواڈ گروپ بھی یہی کوشش کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان نے خطے میں چین کا اثرورسوخ کم کرنے کے لیے چار ملکی اتحاد قائم رکھا ہے جسے 'کواڈ گروپ' کا نام دیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چین کواڈ گروپ کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اس کے مفادات کے خلاف ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکہ نام نہاد چینی چیلنج کا بہانہ بنا کر ان ملکوں کا ایک گروپ بنانا چاہتا ہے۔ اس سے خطے کے ملکوں کے تعلقات خراب ہوں گے۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل 'کواڈ گروپ' کا آن لائن سربراہ اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے چین کی سرگرمیوں کو روکنے اور ان سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی کی ہیں جس میں وہ کامیاب رہا ہے۔
اسد مرزا سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بھارت نے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو استوار کیا ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران بھارت کو بیشتر مغربی ملکوں کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔
پروفیسر بی آر دیپک کے خیال میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں سے مغربی ممالک بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ حال ہی میں منعقد ہونے والے گروپ سات (جی سیون) اور نیٹو کے اجلاس کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے چین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اپنے قریبی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کو ایک برس کے دوران بہتر کیا ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور یہاں تک کہ پاکستان کے ساتھ بھی اس نے اپنے تعلقات بہتر کیے ہیں۔
باہمی رشتوں میں بہتری کا عزم
یاد رہے کہ چین کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ماہ ایک آن لائن نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ چین بھارت کے ساتھ تعمیری رشتے چاہتا ہے۔ ان کے مطابق سرحدی تنازع چین بھارت تعلقات کی مکمل کہانی نہیں ہے۔ چین بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کو بہت اہمیت دیتا ہے اور سرحدی تنازعات کو مذاکرات کی مدد سے حل کرنا چاہتا ہے۔
بھارت بھی چین کے ساتھ اپنے رشتوں کو بہتر بنانے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ وہ بھی بات چیت کی مدد سے باہمی تنازعات کو حل کرنے پر زور دیتا ہے۔
تاہم بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ ماہ نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعلقات کا انحصار اس پر ہے کہ دونوں ملک سرحد پر امن و استحکام کے قیام کے لیے ہونے والے معاہدوں پر کتنا عمل کرتے ہیں۔