چین نے امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے چینی درآمدات پر 50 ارب ڈالر کے محصولات عائد کرنے کے اعلان کے جواب میں امریکہ سے چین بھیجی جانے والی کلیدی برآمدات پر اسی پیمانے کے محصولات عائد کر دیئے ہیں۔ ان برآمدات میں سویابین، ہوائی جہاز، امریکی گاڑیاں، بیف اور کیمیکلز شامل ہیں۔ امریکی مصنوعات پر چین کی جانب سے 25 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس کی مجموعی مالیت 50 ارب ڈالر کے برابر ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ دنوں میں جاری تجارتی محاذ آرائی کے پس منظر میں چین کو جوابی کارروائی کا فیصلہ کرنے میں صرف گیارہ گھنٹے لگے۔
صدر ٹرمپ نے البتہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ ادلے کے بدلے پر مبنی ان کارروائیوں سے دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی سوپر پاورز کے درمیان حقیقتاً تجارتی جنگ چھڑ چکی ہے۔
اُنہوں نے آج بدھ کے روز ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ہم چین کے ساتھ تجارتی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ امریکہ اپنے کچھ احمق اور نا اہل لوگوں کی وجہ سے کئی برس پہلے ہی ہار چکا ہے جو امریکہ کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ اب ہمیں ہر سال 500 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ہم اسے جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘
معاشی ماہرین اور سرمایہ کار اس مخمصے میں ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی تنازعہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرے اور اس میں مزید کتنی شدت پیدا ہو جائے۔
کیپٹل اکنامکس سے وابستہ سینئر چینی ماہر معاشیات جولینایوانز پریچرڈ کے نزدیک چین کا جوابی اقدام بہت سے لوگوں کے لئے باعث حیرت ہے کیونکہ توقع تھی کہ چین اس قدر سخت جواب نہیں دے گا۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ بیان بازی سے قطع نظر ابھی تک دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر مذکورہ محصولات حقیقتاً لاگو کرنے شروع نہیں کئے ہیں۔
تاہم چین میں امریکہ سے درآمد ہونے والی جو کلیدی اشیاء محصولات سے متاثر ہوں گی اُن میں ٹیسلا الیکٹرک کارز، فورڈ کے لنکن آٹو ماڈل اور جنرل ڈائنیمکس کی طرف سے تیار کردہ گلف سٹریم جیٹ خاص طور پر شامل ہیں۔
اگر دونوں ملکوں کی طرف سے اُن اشیاء کا موازنہ کیا جائے جن پر محصولات عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو امریکہ نے زیادہ تر غیر معروف صنعتی اشیاء کو فہرست میں شامل کیا ہے جبکہ چین نے ایسی اشیاء کا انتخاب کیا ہے جو امریکہ کی طرف سے درآمدات کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں، جیسے سویابین، بیف، کاٹن اور دیگر کلیدی زرعی اجناس جو آیووا سے ٹیکساس تک پھیلی ہوئی ہیں اور اُن امریکی ریاستوں میں تیار کی جاتی ہیں جن کے شہریوں نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔