چین کی ایک عدالت نے ملک کے مسلمان اکثریتی علاقے سنکیانگ میں عوامی مقامات پر چاقو وں سے حملے اور بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں آٹھ افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی کے ایک ٹرین اسٹیشن پر بم دھماکے اور چاقووں سے مسلح افراد کے حملے میں تین افراد ہلاک اور 79 زخمی ہوگئے تھے۔
بعد ازاں مئی میں دو گاڑیوں میں سوار افراد ایک بازار میں دھماکہ خیز مواد پھینک کر فرار ہوگئے تھے جس کے نتیجے میں 39 افراد مارے گئے تھے۔
چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان حملوں میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے پیر کو اپنا فیصلہ سنایا ہے۔
عدالت نے پانچ شریک ملزمان کو موت کی "معطل" سزا سنائی ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنی پوری عمر قید کاٹنا پڑے گی۔ حملوں میں ملوث چار دیگر ملزمان کو قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
چین کے سرکاری ٹی وی نے بعض ملزمان کے انٹرویوز بھی نشر کیے ہیں جن میں وہ اپنی کارروائیوں پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہیں ان حملوں کے لیے ورغلایا گیا تھا۔
سنکیانگ میں بسنے والے ایغور نسل کے مسلمانوں کی بیرونِ ملک قائم تنظیم 'ورلڈ ایغور کانگریس' نے چینی عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سرکاری دباؤ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
تنظیم کے ترجمان نے مغربی ذرائع ابلاغ کو بذریعہ ای میل بھیجے جانے والے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چین کی حکومت ان حملوں کے محرکات اور وجوہات کا ادراک نہیں کر رہی جو، ان کے بقول، اس کی اپنی جابرانہ پالیسیوں کا ردِ عمل ہیں۔
سنکیانگ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران عوامی مقامات پر چاقووں اور بموں کے حملوں میں شدت آئی ہے جن میں اب تک سیکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
چین ان حملوں کا الزام ایغور علیحدگی پسندوں پر عائد کرتا ہے جو چینی حکومت کے بقول سنکیانگ کی چین سے علیحدگی اور وہاں ایک آزاد مسلمان ریاست کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔
لیکن مغربی تجزیہ کار اور جلاوطن ایغور مسلمان چینی حکومت پر سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ معا ندانہ رویہ اختیار کرنے اور ان کی ثقافتی اور مذہبی شناخت ختم کرنے کے لیے ان پر ریاستی جبر کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔