چین کے تین خلاباز ہفتے کے روز چین کے نئے خلائی اسٹیشن پر کامیابی سے پہنچ گئے جو بیجنگ کے عملے پر مشتمل سب سے طویل مشن اور ایک بڑی خلائی طاقت بننے کی اس کی کوشش کا تازہ ترین سنگ میل ہے۔
چین کے خلائی ادارے نے عملے پر مشتمل خلائی سفر سے متعلق کہا ہے کہ تینوں خلا باز چین کے شمال مغرب میں صحرائے گوبی کے 'جین کوان' لانچنگ مرکز سے جمعے کے روز گرین وچ وقت کے مطابق نصف شب کے کچھ دیر بعد روانہ ہوئے اور توقع ہے کہ ٹیم خلائی اسٹیشن 'تئین گانگ' میں چھ ماہ گزارے گی۔
خلائی ادارے نے اس لانچنگ کو ایک کامیابی قرار دیا اور کہا کہ عملہ بخیر و عافیت ہے۔
'شینڈیو ۔13' جہاز لانچنگ کے بعد سات گھنٹوں سے کم وقت میں خلائی اسٹیشن پر پہنچ گیا۔
اس مشن میں، جو توقع ہے کہ پچھلے نوے دن کے مشن سے دو گنا زیادہ طویل عرصے تک جاری رہے گا، عملہ تیانگونگ اسٹیشن پر مستقبل کی تعمیر کے لئے آلات اور ٹیسٹنگ ٹکنالوجی کو نصب کرے گا۔
مشن کے کمانڈر ژائِی ژی گانگ، پچپن سالہ سابق لڑاکا پائلٹ نے، جو 2008 میں ملک کی پہلی خلائی چہل قدمی کر چکے ہیں، کہا ہے کہ ٹیم گزشتہ مشنز کے دوران کی جانے والی خلائی چہل قدمی کی نسبت زیادہ پیچیدہ کام کرے گی۔
عملے میں، 41 سالہ فوجی پائلٹ، وانگ یاپنگ شامل ہیں، جو 2013 میں خلا میں جانے والی چین کی دوسری خاتون تھیں، اب خلائی اسٹیشن پر جانے والی پہلی خاتون خلا باز بن گئی ہیں۔ ٹیم کے دوسرے رکن پیپلز لبریشن آرمی کے پائلٹ، 41سالہ یے گوانگ فو شامل ہیں۔
خلائی اسٹیشن کی جانب سے جاری تصاویر میں تینوں خلابازوں کو اپنے ان پرستاروں کو الوداعی ہاتھ لہراتے ہوئے دکھایا گیا، جنہوں نے لانچ سے قبل رخصتی کی ایک تقریب میں نعرے لگا کر ان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
چین کے خلائی اسٹیشن کا پروگرام، جس کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی ہے، ایک روور مریخ اور تحقیقی مشنز چاند پر بھیج چکا ہے۔
تیانگونگ کا مطلب 'آسمانی محل' ہے۔ توقع ہے کہ یہ مشن کم از کم 10 سال تک کام کرے گا۔
یہ اسٹیشن مکمل ہونے کے بعد 'سویت میر' اسٹیشن جیسا ہوگا جو 1980 سے 2001 تک زمین کے گرد چکر لگاتا رہا تھا۔
خلا سے متعلق ایک غیر جانبدار خلائی تجزیہ کار، چن لین نے اے ایف پی کو بتایا کہ "تازہ ترین مشن کا مقصد چین کی ٹکنالوجیکل سرحد کی توسیع'' اور انسانوں کی موجودگی سے متعلق خلائِی اسٹیشن کے سسٹم کی ایک زیادہ طویل دورانئے کی صلاحیت کی توثیق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "میرا یہ خیال نہیں ہے کہ یہ بہت مشکل ہو گا، کیوں کہ چین کی ٹیکنالوجیز کافی مضبوط ہیں، اگرچہ خلا میں ہر کام مشکل ہوتا ہے۔"
ہفتے کے روز کا یہ خلائی مشن چین کی جانب سے اپنا وہ پہلا شمسی تحقیقی سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد لانچ ہوا ہے جو سورج میں ہونے والی تبدیلیوں کے مشاہدے کے لئے ایک ٹیلی اسکوپ سے لیس تھا ۔
چینی خلائی ادارہ اگلے سال کے آخر تک تیانگونگ میں کل گیارہ مشن بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جن میں کم از کم عملے پر مشتمل دو مشن شامل ہوں گے جو ستر ٹن کے اس اسٹیشن کی توسیع کے لئے لیبارٹری کے دو یونٹس وہاں پہنچائیں گے۔
چین کے خلائی عزائم کو بڑھانے میں امریکہ، روس، کینڈا، یورپ اور جاپان کے اشتراک کے حامل بین الاقوامی خلائِی اسٹیشن، آئی ایس ایس، پر امریکہ کی جانب سے چینی خلا بازوں پر پابندی کا بھی ایک کردار رہا ہے۔
آئی ایس ایس 2024 میں ریٹائر ہو جائے گا، اگرچہ ناسا نے کہا ہے کہ یہ 2028 تک بدستور فعال رہ سکتا ہے۔
خلا سے متعلق چین عہدے دار کہہ چکے ہیں کہ وہ خلائی اسٹیشن میں غیر ملکی تعاون کا خیر مقدم کریں گے، اگرچہ اس تعاون کا دائرہ کار ابھی تک واضح نہیں ہے ۔
چین 1970 میں اپنا پہلا خلائی سیٹلائٹ لانچ کرنے کے بعد سے ایک طویل سفر طے کر چکا ہے۔ اس نے 2003 میں اپنا پہلا خلائی جہاز تائیکوناٹ خلا میں بھیجا تھا اور اپنے پہلے تاریخی 'چانگ کے 4' روباٹ کو 2019 میں چاند سے بہت دور ایک طرف اتارا تھا۔
مئی میں چین مریخ پر روور کو اتارنے اور چلانے والا دوسرا ملک بن گیا۔
تیانگونگ خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کے پاس رہنے کے لیے الگ جگہیں، ورزش کا سامان اور زمینی کنٹرول کے ساتھ ای میلز اور ویڈیو کالز کے لیے ایک مواصلاتی مرکز ہوگا۔
چین کے سرکاری ٹی وی نے کہا ہے کہ خلابازوں نے اپنے طویل مشن کے دوران قمری سال کا جشن منانے کے لیے خاص خوراک اور سامان بھی پیک کیا تھا، جس میں پکوڑیاں یا 'ڈمپلنگز' بھی شامل تھیں۔