تائیوان کی صدر سائی اِنگ وین نے چین کو خبردار کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی فوجی جارحیت سے باز رہے۔ سائی اِنگ وین کو گزشتہ برس صدارتی انتخاب جیتے کے بعد سے چین کی طرف سے بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا ہے اور چین نے تائیوان کے اردگرد پانیوں میں اپنی جنگی مشقوں میں بتدریج اضافہ کر دیا ہے۔
صدر سائی کا تعلق آزادی پسند جماعت ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی سے ہے اور چین کو شبہ ہے کہ سائی تائیوان کو باقاعدہ آزادی کی جانب لیجانے کی کوشش کر رہی ہیں جو چین کیلئے ایک ریڈ لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ چین تائیوان کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔
تائیوان کی صدر کہتی ہیں کہ آبنائے تائیوان میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیاں نہ صرف اس علاقے کے حالات پر اثرانداز ہو رہی ہیں بلکہ اس کے اثرات تمام تر مشرقی ایشیا پر پڑ رہے ہیں۔ یوں صرف تائیوان کو ہی اس مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔
سائی نے رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس خطے کے وہ تما م ملک جو امن و استحکام کے خواہشمند ہیں، اس بات پر متفق ہیں اور چین اسے نظر انداز نہیں کر سکتا کہ آبنائے تائیوان میں موجود مسائل کا حل فوجی ذرائع سے ممکن نہیں ہے بلکہ اسے پر امن طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران میز پر اُن کے دونوں جانب لڑاکا جیٹ کے ماڈل موجود تھے۔
اس ہفتے تائیوان کی وزارت دفاع نے ایک قرطاس ابیض جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین کی طرف سے فوجی جارحیت کا خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور گزشتہ ایک برس کے دوران چینی فضائیہ کے جہازوں نے تائیوان کے قریب 16 مرتبہ اُڑانیں بھری ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ فوجی مشقیں معمول کا حصہ ہیں اور تائیوان کو اس کا عادی ہو جانا چاہئیے۔ لیکن تائیوان کی صدر سائی کہتی ہیں کہ ہم جن جغرافیائی اور سیاسی پش منظر میں رہ رہے ہیں ، اُن میں چین کی طرف سے فوجی توسیع پسندی کے عزائم اب ظاہر ہونے لگے ہیں جن کا اظہار چینی فضائیہ اور بحریہ کی مشقوں سے ہوتا ہے۔
اُدھر چین نے تائیوان کو خبردار کیا ہے کہ وہ تائیوان کے چین کے ساتھ دوبارہ الحاق کو روکنے کی خاطر ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہے۔ صدر سائی کہتی ہیں کہ تائیوان تمام تر علاقے میں پر امن طریقے سے رہنا چاہتا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر وہ تائیوان کی سلامتی اور طرز زندگی کا بھرپور دفاع کرے گا۔
اس وقت تائیوان کے پاس موجود بیشتر ہتھیار امریکی ساختہ ہیں اور تائیوان امریکہ سے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ اسے زیادہ جدید ہتھیار فروخت کرے۔