واشنگٹن —
جلاوطن تبتی حکومت کی چینی زبان کی ویب سائٹ، جسے ہیک اور کمپیوٹر وائرس زدہ کیا گیا تھا، پھر سے کام کرنے لگی ہے۔
کمپیوٹر سکیورٹی ادارے ’کیپرسکائی لیب‘ کا کہنا ہے کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائٹ پر وہی گروپ حملہ آور ہوا جو ماضی میں ایشیا میں قائم حقوق انسانی کے گروپوں کو ہدف بناتا رہا ہے۔
شائع ہونے والے ایک بلاگ میں، ’کیپرسکائی لیب‘ کے سکیورٹی کے ماہر، کُرٹ بوم گارٹنر نے وائرس کے حملے کی تشخیص ’واٹرنگ ہول‘ کے نام سے کی ہے، جو ایک خطرناک ’کوڈ‘ داخل کرتا ہے، جو سائٹ پر آنے والے افراد کے کمپیوٹروں کو متاثر کرتا ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اِسی ’کوڈ‘ سے چند نظاموں پر ہونے والا یہ حملہ چین اور امریکہ کے مقامات سے کیا گیا۔
چینی زبان کی ویب سائٹ کے ایڈیٹر، سنگئے کیاب نے ’وائس آف امریکہ‘ کی تبتی سروس کو بتایا کہ اب ویب سائٹ کو ’وزٹ‘ کرنا محفوظ ہے۔
ہونے والے اِس حملے میں ویب سائٹ کے انگریزی اور تبتی زبان کی ویب سائٹیں محفوظ رہیں۔
اس سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ چین سرگرم تبتی کارکنوں اور ویب سائٹ پر آنے والی ٹریفک کی نگرانی کی کوشش کرتا ہے۔
تبت کی مرکزی انتظامیہ کے ایک ترجمان، تاشی فنسوک کا کہنا ہے کہ تازہ ترین حملے کے ذریعے کی شناخت نہیں ہو پائی۔ تاہم، اُنھوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ پچھلے سائبر حملے چین ہی سے کیے گئے تھے، جہاں کے حکام دلائی لامہ کو ایک شدت پسند اور علیحدگی پسند شمار کرتے ہیں۔
سنگیے کیاب کا کہنا ہے کہ جب تک چھان بین مکمل نہیں ہو جاتی، کسی پر الزام نہیں دیا جا سکتا۔
کمپیوٹر سکیورٹی ادارے ’کیپرسکائی لیب‘ کا کہنا ہے کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائٹ پر وہی گروپ حملہ آور ہوا جو ماضی میں ایشیا میں قائم حقوق انسانی کے گروپوں کو ہدف بناتا رہا ہے۔
شائع ہونے والے ایک بلاگ میں، ’کیپرسکائی لیب‘ کے سکیورٹی کے ماہر، کُرٹ بوم گارٹنر نے وائرس کے حملے کی تشخیص ’واٹرنگ ہول‘ کے نام سے کی ہے، جو ایک خطرناک ’کوڈ‘ داخل کرتا ہے، جو سائٹ پر آنے والے افراد کے کمپیوٹروں کو متاثر کرتا ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اِسی ’کوڈ‘ سے چند نظاموں پر ہونے والا یہ حملہ چین اور امریکہ کے مقامات سے کیا گیا۔
چینی زبان کی ویب سائٹ کے ایڈیٹر، سنگئے کیاب نے ’وائس آف امریکہ‘ کی تبتی سروس کو بتایا کہ اب ویب سائٹ کو ’وزٹ‘ کرنا محفوظ ہے۔
ہونے والے اِس حملے میں ویب سائٹ کے انگریزی اور تبتی زبان کی ویب سائٹیں محفوظ رہیں۔
اس سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ چین سرگرم تبتی کارکنوں اور ویب سائٹ پر آنے والی ٹریفک کی نگرانی کی کوشش کرتا ہے۔
تبت کی مرکزی انتظامیہ کے ایک ترجمان، تاشی فنسوک کا کہنا ہے کہ تازہ ترین حملے کے ذریعے کی شناخت نہیں ہو پائی۔ تاہم، اُنھوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ پچھلے سائبر حملے چین ہی سے کیے گئے تھے، جہاں کے حکام دلائی لامہ کو ایک شدت پسند اور علیحدگی پسند شمار کرتے ہیں۔
سنگیے کیاب کا کہنا ہے کہ جب تک چھان بین مکمل نہیں ہو جاتی، کسی پر الزام نہیں دیا جا سکتا۔