انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے کم از کم 100 'جعلی اکاؤنٹس' پکڑے ہیں جو کہ تبت کے خلاف مبینہ طور پر چینی حکومت کا پراپیگبڈہ پھیلا رہے تھے۔
یہ اکاؤنٹس ’’تبت فری‘‘ نامی تنظیم نے دریافت کیے جو کہ اس کے بقول مغربی ناموں سے بنائے گئے تھے اور اس پر موجود تصاویر میں امریکی اسکول کی طالبات اور بعض آنجہانی شخصیات شامل ہیں۔
لندن میں قائم اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ان پر ایسے تحریریں بھی دیکھی گئیں جن میں دلائی لاما پر حملہ کیا گیا اور تبت کو ’’دلکش اور مطمئین چینی صوبہ‘‘ دکھایا گیا۔
بیجنگ ایک لمبے عرصے سے تبت کو مستحکم علاقہ پیش کرنے کی کوششیں کرتا آیا ہے باوجود اس کے کہ چینی حکمرانی کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے 2009 سے 130 سے زائد تبتی باشندے خود سوزی کر چکے ہیں۔
بیجنگ دلائی لاما پر یہ الزام لگاتا آیا ہے کہ وہ لوگوں کو خود سوزی پر اکساتے ہیں تاہم لاما ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
چینی حکومت کی طرف سے ابھی تک تبت فری کے جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹس سے متعلق الزامات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یہ تنظیم امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے ساتھ مل کر تحقیقات بھی کرتی ہے۔
تنظیم کی طرف سے واضح طور پر چینی حکومت پر الزامات عائد نہیں کیے گئے۔ لیکن ایک خط میں انہوں نے ٹوئٹر کے سربراہ ڈیک کوسٹولو پر زود دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سماجی رابطوں کی ان کی ویب سائٹ ’’مستقبل میں آمرانہ حکومتوں کے جھوٹے پروپیگنڈہ پر مبنی مفاد کے لئے استعمال نا ہو پائے‘‘۔
تنظیم کا کہنا تھا کہ یہ اکاؤنٹس ’’دھوکہ دہی کا عمل ہے تاکہ رائے عامہ چالاکی سے ظالم و جابر حکومتوں کے بارے میں تبدیل کی جا سکے‘‘۔
منگل کو رپورٹ میں بتائے گئے کئی جعلی اکاؤنٹس کو معطل کیا۔ تبت فری ایسے مزید سینکٹروں اکاؤنٹس کے بارے میں اپنے خدشے کا اظہار کر چکی ہے۔
ٹوئٹر اور دیگر مغربی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر چین میں پابندی عائد ہے اگرچہ سرکاری ذرائع ابلاغ کے ادارے ٹوئٹر استعمال کرتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی سطح پر حکومتی موقف پیش کرتے ہیں۔