بیجنگ میں امریکہ اور چین کے درمیان سیکورٹی اورمعیشت کے بارے میں براہ راست مذاکرات ختم ہو گئے ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں چند معمولی سے سمجھوتے ہوئے لیکن مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں نئی ابتدا ہوئی ہے۔
اس سالانہ میٹنگ سے قبل کے چند مہینوں کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے۔ امریکہ کی طرف سے تائیوان کو اسلحہ کی فروخت، دلائی لامہ کا امریکہ کا دورہ اور انٹرنیٹ کی آزادی کے بارے میں وزیرخارجہ ہلری کلنٹن کی تقریر ان تمام چیزوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ڈین چینگ کہتے ہیں کہ بیجنگ میں مذاکرات سے سفارتی سطح پر کچھ استحکام بحال ہوا ہے’’اس ڈائیلاگ کے ذریعے نئے سرے سے بات چیت شروع ہوئی ہر ایک کو اپنی تشویش کے اظہار کا موقع ملا اور سب نے کُھل کر تبادلۂ خیال کیا‘‘۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان مذاکرات سے ظاہر ہوا کہ دنیا میں چین کا کردارکتنا اہم ہوتا جا رہا ہے۔ کئی لحاظ سے وہ دنیا کی اگلی بڑی طاقت بن رہا ہے۔ جہاں تک شمالی کوریا اورایران کے بارے میں چین کے تعاون کا تعلق ہے تو کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین کا رویہ مزید خراب نہیں ہو رہا ہے ۔
مذاکرات میں جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کے بارے میں خاص طور سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ بروکنگ انسٹیٹویٹ کے رچرڈ بش کہتے ہیں کہ یہ مذاکرات بالکل صحیح وقت پر ہوئے’’یہ ٹھیک اسی قسم کا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹجک اور اقتصادی ڈائیلاگ کی تشکیل کی گئی تھی۔ جنوبی کوریا کی تفتیشی رپورٹ کے بعد وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اوران کے چینی ہم منصب نے بڑے صحیح وقت پراس مسئلے کے بارے میں بات چیت کی‘‘۔
رچرڈ بُش کہتے ہیں کہ اگرچہ شمالی اورجنوبی کوریا کے درمیان صورتِ حال ابھی تک مستحکم نہیں ہوئی ہے لیکن امکان یہی ہے کہ چین اورامریکہ کے درمیان تعاون سے شمالی کوریا کی اشتعال انگیزی پر توجہ دی جائے گی۔
چین نے فوری طور پر جنوبی کوریا کی رپورٹ کو قبول نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا اقدام کرتا ہے۔ لیکن یہ امید رکھنی چاہیئے کہ وہ رپورٹ کو قبول کرلے گا اور شمالی کوریا کے خلاف کثیر الملکی کارروائی میں جنوبی کوریا اورامریکہ کا ساتھ دے گا۔
لیکن ڈین چینگ کہتے ہیں کہ اقتصادی اور اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان مستقبل میں کسی نئے تعاون کی بِنا نہیں پڑی۔ یہ بات بالکل واضح نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کتنا تعاون موجود ہے۔
دو سوافراد پر مشتمل وفد سے مکالمہ تو بہت دیر تک جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں کہ کام کتنا ہوا ہے۔ چینگ کہتے ہیں کہ عالمی اقتصادی انحطاط سے چین کی بر آمدی صلاحیت اس حد تک متاثر ہوئی ہے کہ وہ ملک کے اندر اپنا کنٹرول باقی رکھنے کے لیے کچھ تبدیلیاں کرنے کو تیار ہے’’ برآمدات مسلسل کم ہوتی رہیں گی جس سے یہ تشویشناک امکان پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے اندر بے چینی نہ پھیل جائے ۔ اس لیے چینی حکومت اب اپنی اقتصادی پالیسیوں میں ایسا توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے امریکی مطالبات پورے ہو جائیں، اور چینی حکومت کو اپنا اقتدار قائم رکھنے میں مدد ملے‘‘۔
ڈائیلاگ میں چین کی تجارتی پالیسی پر بھی بات ہوئی۔ اس پالیسی میں چینی صنعتوں کو تحفظ دینے کے لیے غیر ملکی درآمدات پر پابندیا ں لگائی جاتی ہیں۔ رچرڈ بُش کہتے ہیں کہ ملکی ایجاد واختراع کی پالیسی سے طویل مدت میں چین کو مدد نہیں ملے گی’’ ملکی ایجاد و اختراع پر انحصار کرنے اورسرکاری ضروریات پوری کرنے کے لیے صر ف چینی کمپنیوں سے خریداری کرنے کی پالیسی چین کے لیے اچھی ثابت نہیں ہو گی۔ اگر کسی بڑی مارکٹ کے لیئے غیر ملکی اشیاء کی خریداری کو بلاک کر دیا گیا تو اس سے کارکردگی خراب ہو جائے گی اور معیشت میں نقائص پیدا ہوجائیں گے‘‘۔
رچرڈ بش کہتے ہیں کہ چین اقتصادی طور پر باہر کی کمپنیوں پر انحصار کرتا ہے اور اس وجہ سے اسے بالآخر اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑے گی۔ مرکزی سطح پراورصوبائی و مقامی سطح پر اس قسم کی پالیسی اپنانے سے بین الاقوامی کاروباری اداروں کے ساتھ چین کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ امریکہ میں بڑی بڑی کارپوریشنیں ہی امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کے فروغ کے لیے سیاسی حمایت فراہم کرتی ہیں۔
یہ امکان بھی موجود ہے کہ امریکہ قانون ساز دباو ڈالیں کہ چین کو باقاعدہ طور پر کرنسی کی قدر میں ہیر پھیر کرنے والا ملک قرار دے دیا جائے۔ بیجنگ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر میں کچھ اضافے کی اجازت دے دے گا لیکن اس نے یہ نہیں بتایا ہے کہ کیا اقدام کیا جائے گا۔
بیجنگ میں امریکہ اور چین کے درمیان سیکورٹی اورمعیشت کے بارے میں براہ راست مذاکرات ختم ہو گئے ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں چند معمولی سے سمجھوتے ہوئے لیکن مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں نئی ابتدا ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1