چین میں امریکہ کے سبکدوش ہونے والے سفیر گیری لاک نے بدھ کو بیجنگ پر زور دیا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی اور اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنائے۔
مسٹر لاک نے بیجنگ میں چینی یونیورسٹی کے طالب علموں کے ایک گروپ سے خطاب میں کہا کہ بہت سے معاملات میں ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ چین بنیادی انسانی حقوق سے متعلق اپنے موجودہ قوانین کے اطلاق کو یقینی بنائے۔
اُنھوں نے کہا کہ چین کے سامنے ایک عظیم مستقبل ہے لیکن اس کو مکمل طور پر حاصل کرنے کا انحصار ملک میں قابل احترام اور غیر جانبدار عدلیہ، ماہر وکلاء، سمجھدار قیادت اور سب سے بڑھ کر قانون کی حکمرانی کے مکمل احترام پر ہے۔
’’اس کا انحصار آئین کے مطابق اظہار آزادی، انٹرنیٹ تک بلا روک ٹوک رسائی، باخبر شہریوں کے درمیان مستحکم، ترقی پسند چین کی تشکیل سے متعلق مکالمے پر بھی ہے۔‘‘
63 سالہ لاک آئندہ ہفتہ کے روز چین سے روانہ ہو جائیں گے، وہ چین میں 2011ء سے سفیر کے عہدے پر کام کر رہے تھے جو واشنگٹن اور بیجنگ کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک ’’پیچیدہ‘‘ سفارتی ذمہ داری ہے۔
لاک کی بدھ کو کی گئی تقریر کا محور چین میں کیمونسٹ پارٹی پر تنقید کرنے والوں کے خلاف حکومت کے بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن پر امریکہ کی تشویش سے متعلق تھا۔
انھوں نے چین پر زور دیا کہ وہ غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ بہتر اور مساوی رویہ اختیار کرے جن میں سے کئی ایک نے شکایت کی ہے کہ ان کی خبروں کے ردعمل میں ان کے کام میں سرکاری طور پر مداخلت کی جاتی ہے۔
چین نے امریکی سفیر کے خطاب پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن وہ عا م طور اس طرح کے خدشات کو چین کے معاملات میں غیر مناسب مداخلت قرار دے کر مسترد کرتا رہا ہے۔
لاک بیجنگ میں امریکی سفیر کے طور پر فرائض انجام دینے والے پہلے چینی نژاد امریکی ہیں، اپنے سادہ رہن سہن کے باعث میڈیا پر اُن کا اکثر چرچا رہا ہے۔
مسٹر لاک نے بیجنگ میں چینی یونیورسٹی کے طالب علموں کے ایک گروپ سے خطاب میں کہا کہ بہت سے معاملات میں ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ چین بنیادی انسانی حقوق سے متعلق اپنے موجودہ قوانین کے اطلاق کو یقینی بنائے۔
اُنھوں نے کہا کہ چین کے سامنے ایک عظیم مستقبل ہے لیکن اس کو مکمل طور پر حاصل کرنے کا انحصار ملک میں قابل احترام اور غیر جانبدار عدلیہ، ماہر وکلاء، سمجھدار قیادت اور سب سے بڑھ کر قانون کی حکمرانی کے مکمل احترام پر ہے۔
’’اس کا انحصار آئین کے مطابق اظہار آزادی، انٹرنیٹ تک بلا روک ٹوک رسائی، باخبر شہریوں کے درمیان مستحکم، ترقی پسند چین کی تشکیل سے متعلق مکالمے پر بھی ہے۔‘‘
63 سالہ لاک آئندہ ہفتہ کے روز چین سے روانہ ہو جائیں گے، وہ چین میں 2011ء سے سفیر کے عہدے پر کام کر رہے تھے جو واشنگٹن اور بیجنگ کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک ’’پیچیدہ‘‘ سفارتی ذمہ داری ہے۔
لاک کی بدھ کو کی گئی تقریر کا محور چین میں کیمونسٹ پارٹی پر تنقید کرنے والوں کے خلاف حکومت کے بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن پر امریکہ کی تشویش سے متعلق تھا۔
انھوں نے چین پر زور دیا کہ وہ غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ بہتر اور مساوی رویہ اختیار کرے جن میں سے کئی ایک نے شکایت کی ہے کہ ان کی خبروں کے ردعمل میں ان کے کام میں سرکاری طور پر مداخلت کی جاتی ہے۔
چین نے امریکی سفیر کے خطاب پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن وہ عا م طور اس طرح کے خدشات کو چین کے معاملات میں غیر مناسب مداخلت قرار دے کر مسترد کرتا رہا ہے۔
لاک بیجنگ میں امریکی سفیر کے طور پر فرائض انجام دینے والے پہلے چینی نژاد امریکی ہیں، اپنے سادہ رہن سہن کے باعث میڈیا پر اُن کا اکثر چرچا رہا ہے۔