چین نے پاکستان میں موجود اپنے شہریوں کو دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں سے متعلق خبردار کیا ہے۔
بظاہر یہ ایک غیر معمولی انتباہ ہے۔
پاکستان میں چین کے سفارت خانے کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں چین کے شہریوں اور تنظیموں (اداروں) پر حملوں کی منصوبہ بندی سے متعلق معلومات ملی ہیں۔
خبر رساں اداروں رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے علاوہ چینی ذرائع ابلاغ نے بھی سفارت خانے کے اس بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ چینی شہری پر ہجوم مقامات پر جانے سے گریز کریں۔
واضح رہے کہ رواں سال جون میں کوئٹہ سے دو چینی اساتذہ کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور اس کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
اکتوبر میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایک خط کا متن سامنے آیا تھا جس میں اسلام آباد میں چین کے سفارت خانے نے پاکستان کی وزارتِ داخلہ کو لکھا تھا کہ نئے سفیر یاؤ جینگ کی زندگی کو دہشت گرد تنظیم ’ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ‘ سے خطرہ ہے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کا دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں معلومات وزارتِ داخلہ کو فراہم کردی گئی ہیں۔
پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس پر ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ چینی سفیر کو لاحق خطرات سے متعلق وزارتِ داخلہ کو لکھے گئے خط کے ’لیک‘ ہونے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے اُن کی سکیورٹی کے بارے میں تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق پاکستانی پارلیمان کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے گزشتہ ماہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ اس وقت پاکستان میں لگ بھگ 20 ہزار کے لگ بھگ چینی باشندے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں چینی کمپنیاں 300 مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہیں اور ان کے بقول "نو ہزار سے زائد چینی شہری سی پیک کے تحت جب کہ لگ بھگ 10 ہزار کے لگ بھگ شہری راہداری منصوبے سے ہٹ کر جاری دیگر منصوبوں سے وابستہ ہیں۔"
پاکستانی حکومت کی طرف سے پہلے ہی چین پاکسستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحفظ کے لیے ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل خصوصی فورس تشکیل دی جا چکی ہے، اور پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔