چین نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے لیے بیجنگ کی طرف سے اسلام آباد کو فراہم کی جانے والی مالی معاونت اور قرضے پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں۔
چین کے سفیر یاؤ جنگ نے یہ بات بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہی۔
اسلام آباد میں سی پیک سے متعلق ایک تقریب کے موقع پر وی او اے سے بات کرتے ہوئے یاؤ جنگ کا کہنا تھا کہ سی پیک کے لیے چین کی طرف سے فراہم کی جانے والی مالی معاونت مختلف نوعیت کی ہے اور ان منصوبوں کا پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان اور چین کے درمیان معاشی تعاون میں اضافہ ہوا ہے جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مفاد، چین کا بھی مفاد ہے۔
چین کے سفیر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان نے اپنی معیشت کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کر رکھا ہے اور اس سے بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کا خواہش مند ہے۔
امریکہ اور بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والا قرضہ چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
لیکن وی او اے سے گفتگو میں چین کے سفیر نے ایک بار پھر واضح کیا کہ چین کی طرف سے پاکستان کو فراہم کیے جانے والے بعض قرضوں کی ادائیگی آئندہ سال شروع ہو گی جو 25 سے 30 سال کی مدت کے دوران ادا کرنے ہوں گے۔
چینی سفیر نے بتایا کہ سی پیک کے تحت جاری منصوبوں میں چین کی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور یہ سرمایہ کاری قرضہ نہیں ہے۔ ان کے بقول اس لیے سی پیک کی وجہ سے پاکستان کے قرضوں کے بوجھ میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔
چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمانوں کے لیے مبینہ حراستی مراکز کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر یاؤ جنگ نے ایک بار پھر اپنے ملک کا یہ موقف دوہرایا کہ سنکیانگ میں حراستی مراکز نہیں ہیں بلکہ وہ فنی تربیت کے مراکز ہیں جہاں مقامی باشندوں کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں ـ
انہوں نے کہا کہ یہ مراکز صرف سنکیانگ میں ہی نہیں ہیں بلکہ پورے چین میں قائم ہیں اور ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
چین کے ان متنازع مراکز کو اقوامِ متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حراستی مراکز قرار دیتے ہیں جنہیں بند کرنے کے لیے عالمی برادری چین پر دباؤ ڈال رہی ہے۔
بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ چین کی حکومت نے ان حراستی مراکز میں سنکیانگ میں آباد یغور نسل کے لاکھوں مسلمانوں کو قید میں رکھا ہوا ہے۔
لیکن وی او اے سے گفتگو کے دوران چین کے سفیر نے ان دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ بعض قوتیں ان تربیتی مراکز کے بارے میں غلط فہمی پھیلا کر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں۔