واشنگٹن —
چین میں برڈ فلو کی ایک نئی قسم ایچ سوین این نائن کے نو کیسز سامنے آئے ہیں۔ جبکہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے تین افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق بھی کر دی گئی ہے۔ بدھ کو چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق چین میں اس وائرس سے اب تک نو افراد متاثر ہوئے ہیں۔
گذشتہ ماہ کے اوائل میں ایک اڑتالیس سالہ باورچی جیانگ ژو کے صوبے میں بیمار پڑا تھا، جس میں پہلی بار برڈ فلو کے اس وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ اس کے بعد مزید پانچ کیسز بھی جلد ہی سامنے آگئے۔ ژن ہُوا ایجنسی کے مطابق اڑتالیس سالہ باورچی ستائیس مارچ کو فوت ہوگیا تھا۔
عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ وہ چین میں برڈ فلو کے مریضوں اور اس وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں چینی عہدیداروں سے رابطے میں بھی ہے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ چینی عہدیدار اس سلسلے میں متحرک ہیں اور سامنے آنے والے کیسز کی کڑی جانچ کر رہے ہیں۔ تاکہ اس بیماری کو مزید پھیلنے سے بچایا جا سکے۔
دنیا بھر میں فلو کے ماہرین مریضوں سے حاصل ہونے والے نمونوں کی جانچ کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایچ سوین این نائن نامی یہ فلو وائرس وبائی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لیتا۔
برڈ فلو کی دیگر اقسام جس میں کہ H5N1 جیسے وائرس شامل ہیں، بہت عرصے سے پرندوں سے پرندوں اور پرندوں سے انسانوں تک پھیلتا رہا ہے۔ گوکہ اس کے بعد یہ وائرس انسان سے انسانوں میں پھیلنے کے زیادہ شواہد نہیں ملے۔
ماہرین فی الحال اس نئے فلو وائرس ایچ سوین این نائن کے بارے میں بھی یہی رائے دے رہے ہیں کہ یہ انسانوں سے انسانوں میں پھیلنے کا امکان بہت کم ہے۔
دیگر سات کیسز میں چین کے کاروباری مرکز شنگھائی میں دو افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ جبکہ دیگر پانچ متاثرہ افراد کی صورتحال تشویشناک بتائی جا رہی ہے اور وہ نین جنگ کے ایک ہسپتال میں زیر ِ علاج ہیں۔ شنگھائی، نین جنگ اور ہانگ ژو کے شہرچین کے مشرق میں ایک دوسرے سے قریبی فاصلے پر واقع ہیں۔
چین کی وزارت ِ زراعت کا کہنا ہے کہ ابھی تک چین میں موجود جانوروں میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ وزارت نے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا کہ یہ وائرس دوسری جگہوں سے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کے ذریعے چین میں پھیلا ہو۔
عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ ابھی تک انسان سے انسان تک ایچ سوین این نائن کے پھیلنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن یہ وائرس کہاں سے پھیلنا شروع ہوا اور کس طرح انسانوں تک پہنچا، اس بارے میں بہت سے سوالات کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے ترجمان گریگوری ہارٹل کے الفاظ، ’’ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ وائرس کیسے پھیلا اور کہاں سے پھیلنا شروع ہوا۔ یہ دو بہت اہم سوالات ہیں جن کے جوابات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اسے کنٹرول کرنا یا اس کا تدارک کرنا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
عالمی ادارہ ِ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت تحقیق دانوں تک درست اور جامع معلومات کی رسائی کو ممکن بنانا بہت ضروری ہے تاکہ تحقیق دانوں کو تحقیق کے لیے بروقت مواد ملے اور وہ ایچ سوین این نائن وائرس کے تدارک کے لیے کوئی ویکسین تیار کر سکیں۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق اس وقت برڈ فلو کے وائرس ایچ سوین این نائن کے لیے کوئی دوا یا ویکسین موجود نہیں ہے۔
گذشتہ ماہ کے اوائل میں ایک اڑتالیس سالہ باورچی جیانگ ژو کے صوبے میں بیمار پڑا تھا، جس میں پہلی بار برڈ فلو کے اس وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ اس کے بعد مزید پانچ کیسز بھی جلد ہی سامنے آگئے۔ ژن ہُوا ایجنسی کے مطابق اڑتالیس سالہ باورچی ستائیس مارچ کو فوت ہوگیا تھا۔
عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ وہ چین میں برڈ فلو کے مریضوں اور اس وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں چینی عہدیداروں سے رابطے میں بھی ہے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ چینی عہدیدار اس سلسلے میں متحرک ہیں اور سامنے آنے والے کیسز کی کڑی جانچ کر رہے ہیں۔ تاکہ اس بیماری کو مزید پھیلنے سے بچایا جا سکے۔
دنیا بھر میں فلو کے ماہرین مریضوں سے حاصل ہونے والے نمونوں کی جانچ کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایچ سوین این نائن نامی یہ فلو وائرس وبائی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لیتا۔
برڈ فلو کی دیگر اقسام جس میں کہ H5N1 جیسے وائرس شامل ہیں، بہت عرصے سے پرندوں سے پرندوں اور پرندوں سے انسانوں تک پھیلتا رہا ہے۔ گوکہ اس کے بعد یہ وائرس انسان سے انسانوں میں پھیلنے کے زیادہ شواہد نہیں ملے۔
ماہرین فی الحال اس نئے فلو وائرس ایچ سوین این نائن کے بارے میں بھی یہی رائے دے رہے ہیں کہ یہ انسانوں سے انسانوں میں پھیلنے کا امکان بہت کم ہے۔
دیگر سات کیسز میں چین کے کاروباری مرکز شنگھائی میں دو افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ جبکہ دیگر پانچ متاثرہ افراد کی صورتحال تشویشناک بتائی جا رہی ہے اور وہ نین جنگ کے ایک ہسپتال میں زیر ِ علاج ہیں۔ شنگھائی، نین جنگ اور ہانگ ژو کے شہرچین کے مشرق میں ایک دوسرے سے قریبی فاصلے پر واقع ہیں۔
چین کی وزارت ِ زراعت کا کہنا ہے کہ ابھی تک چین میں موجود جانوروں میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ وزارت نے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا کہ یہ وائرس دوسری جگہوں سے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کے ذریعے چین میں پھیلا ہو۔
عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ ابھی تک انسان سے انسان تک ایچ سوین این نائن کے پھیلنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن یہ وائرس کہاں سے پھیلنا شروع ہوا اور کس طرح انسانوں تک پہنچا، اس بارے میں بہت سے سوالات کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے ترجمان گریگوری ہارٹل کے الفاظ، ’’ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ وائرس کیسے پھیلا اور کہاں سے پھیلنا شروع ہوا۔ یہ دو بہت اہم سوالات ہیں جن کے جوابات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اسے کنٹرول کرنا یا اس کا تدارک کرنا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
عالمی ادارہ ِ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت تحقیق دانوں تک درست اور جامع معلومات کی رسائی کو ممکن بنانا بہت ضروری ہے تاکہ تحقیق دانوں کو تحقیق کے لیے بروقت مواد ملے اور وہ ایچ سوین این نائن وائرس کے تدارک کے لیے کوئی ویکسین تیار کر سکیں۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق اس وقت برڈ فلو کے وائرس ایچ سوین این نائن کے لیے کوئی دوا یا ویکسین موجود نہیں ہے۔