صوبہ پنجاب کی تحصیل کھاریاں میں پولیس نے ایک مسیحی شخص کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ گرفتاری کے بعد ملزم کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ، کیونکہ پولیس کو ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ بعض مذہبی جماعتیں لوگوں کو اکسا کر تھانے پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔
پولیس نے یہ مقدمہ ڈنگہ نامی علاقے میں رہنے والے ایک شخص ندیم احمد کی درخواست پر درج کیا ہے، جس میں ندیم کا کہنا ہے کہ اس کے دوست اشتیاق احمد جلالی نے اسے بتایا کہ اس نے ایک پرائیویٹ اسپتال میں کام کرنے والے خاکروب کو توہین آمیز الفاظ ادا کرتے ہوئے سنا ہے۔
ندیم نے دعویٰ کیا کہ جب اس نے خاکروب سے بات کی تو اس نے توہین آمیز الفاظ دہرا دیئے، جس پر اس نے مقدمہ درج کرا دیا۔
پولیس کا کہنا ہے علاقے میں حالات قابو میں ہیں اور کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے پولیس کے دستے شہر میں گشت کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے پاکستان میں توہین مذہب کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی شہری کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے۔
ان کے بقول اگر اس اصول کا احترام کیا جاتا تو سابق فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے دور سے اب تک لاتعداد زندگیا ں بچائی جاسکتی تھیں، "چونکہ پولیس لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے نہیں روکتی اس لیے ماورائے عدالت قتل ہورہے ہیں اور ایسے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔"
واضح رہے کہ توہین مذہب سے متعلق قانون سازی 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوئی تھی۔
انسانی حقوق اور آزاد خیال حلقے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس میں ترمیم کی جانی چاہیے لیکن اس بارے میں اب تک کوئی قابل ذکر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
کئی ایسے واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں جن میں لوگوں نے ذاتی مفاد کی بنا پر کسی پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگایا۔
اس سلسلے میں تازہ ترین واقعہ رواں سال اپریل میں مردان کی ایک یونیورسٹی میں پیش آیا جہاں نوجوان طالب علم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں اسی جامعہ کے طلبا نے تشدد اور گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
بعد ازاں تحقیقات سے پتا چلا کہ مشال خان توہین مذہب کا مرتکب نہیں ہوا تھا۔