رسائی کے لنکس

اٹک جیل میں سائفر کیس کی سماعت، عمران خان کے ریمانڈ میں دو ہفتے کی توسیع


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف خفیہ سفارتی معلومات کو منظرِ عام پر لانے پر مبنی سائفر کیس کی پہلی سماعت بدھ کو اٹک جیل میں ہوئی۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین عمران خان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے لیےاٹک جیل پہنچے۔ اس موقع پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اور عمران خان کے وکیل سلمان صفدر قانونی ٹیم کے ہمراہ جیل میں موجود تھے۔

جج ابو الحسنات نے مختصر سماعت کے بعد عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کر دی ہے۔

سماعت کے بعد عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان کو اس کیس میں گرفتار کیا گیا لیکن اس حوالے سے ان کے وکلا لا علم رہے۔

انہوں نے سابق وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر وزارتِ خارجہ میں سائفر کی اصل دستاویز موجود ہے تو کیس کس بات کا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سائفر کو عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں کابینہ میں پیش کیا گیا تھا اور اس وقت اس کو ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا گیا۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں بھی سائفر کو زیرِ بحث لایا گیا جس کے بعد اس کو ڈی مارش کیا گیا۔بقول انکے اس تمام صورتِ حال کے بعد عمران خان پر کسی جرم کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے جیل میں وہی حالات ہیں جو پہلے تھے۔ صرف ایک دیوار کو دو فٹ اونچا کیا گیا ہے۔

عمران خان کے وکلا نے اس کیس میں ان کی ضمانت کی درخواست بھی دائر کر دی ہے جس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے دو ستمبر کو سماعت کی تاریخ دی ہے۔

اٹک جیل میں بدھ کو سماعت سے قبل عمران خان کی قانونی ٹیم کو داخلے سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم انہیں بعد میں داخلے کی اجازت دے دی گئی۔

سائفر کیس میں تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی ایف آئی اے نے دو ہفتے قبل گرفتار کیا تھا وہ بھی اس وقت ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔

عمران خان نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک خط لہرایا تھا جو ان کے مطابق وہ مبینہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا جس میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کو ہٹانے کا کہا گیا تھا۔

عمران خان کی سزا معطلی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج کیا ہوا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:09 0:00

امریکہ اس بارے میں عمران خان کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کی پریس بریفنگزمیں بھی اس بارے میں متعدد بار پوچھے گئے سوالات میں عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا گیاہے۔

اپریل 2022 میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ٹی ایم) نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔

عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے حکومت ختم کرنے کی سازش کی۔ بعد ازاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سازش میں شامل قرار دیا۔

اس سائفر کی تحقیقات کا آغاز شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے کیا تھا۔اس بارے میں عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناع حاصل کیا تھا لیکن گزشتہ ماہ عدالت نے یہ حکم امتناع ختم کر دیا تھا۔

اس کیس میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے سرکاری دستاویز گم کرنے، اور سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے اس سائفر کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

حکومت نے کہاتھا کہ اس کیس میں عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی جس کے سیکشن پانچ کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پرسرکاری خفیہ دستاویز کو اجازت کے بغیر افشا کیا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG