رسائی کے لنکس

کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان لاہور میں جھڑپیں، پولیس افسر 'اغوا'


حکومت نے حال ہی میں ٹی ایل پی پر پابندی عائد کر دی تھی۔
حکومت نے حال ہی میں ٹی ایل پی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں پُرتشدد مظاہروں کے باعث کالعدم قرار دی جانے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک اور پولیس کے درمیان لاہور میں پھر جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

پنجاب پولیس کے ایک بیان کے مطابق اتوار کی صبح تنظیم کے کارکنوں نے لاہور کے نواں کوٹ تھانے پر حملہ کیا جہاں پولیس اور رینجرز کے اہل کار محصور ہو کر رہ گئے۔اس دوران ٹی ایل پی کے کارکن ڈی ایس پی نواں کوٹ کو اغوا کر کے انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔

پولیس کے مطابق شرپسند 50 ہزار لیٹر کے ایک پیٹرول ٹینکر کو بھی اپنے ہمراہ چوک یتیم خانہ کے قریب واقع اپنے مرکز لے گئے۔

پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلح شرپشندوں نے اس دوران پولیس پر پیٹرول بم بھی برسائے جس کے جواب میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے تھانے کا کنٹرول حاصل کیا۔ پولیس کے مطابق یہ ساری کارروائی اپنے دفاع میں کی گئی جب کہ پولیس نے کسی مدرسے یا مسجد کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

خیال رہے کہ 'کالعدم تحریکِ لبیک' کا مرکزی دفتر لاہور کے علاقے یتیم خانے کے قریب واقع ہے اور گزشتہ ایک ہفتے سے وہاں کارکنوں کا احتجاجی دھرنا جاری تھا۔

دوسری جانب تحریکِ لبیک کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور فورسز نے اتوار کی صبح آٹھ بجے تحریک کے مرکز پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں متعدد کارکن ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔

کالعدم ٹی ایل پی کی مرکزی شوریٰ کے رہنما علامہ شفیق امینی نے کہا کہ جب تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک وہ آج کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ تحریکِ لبیک پاکستان نے رواں ہفتے کے دوران ملک کے کئی شہروں میں احتجاج کر کے نظامِ زندگی مفلوج کر دیا تھا۔ اس دوران پولیس اور تنظیم کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کے علاوہ متعدد کارکن اور پولیس اہل کار زخمی بھی ہوئے تھے۔

لاہور پولیس چیف کے ترجمان انسپکٹر رانا عارف نے بتایا کہ پولیس اتوار کی صبح جب بند سڑک کو کھلوانے گئی تو ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں نے پولیس سے مذاکرات کے بجائے اُن پر حملہ کر دیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں نے ڈی ایس پی نواں کوٹ کو تشدد کا نشانہ بنایا جب کہ چار دیگر پولیس اہل کاروں کو بھی اغوا کیا۔

رانا عارف کے مطابق ٹی ایل پی کے کارکنوں سے علاقے کو خالی کرانے کے لیے کیے گئے آپریشن کے دوران پولیس اہل کاروں سمیت دیگر متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ اتوار کی دوپہر آپریشن ملتوی کر دیا گیا ہے۔

پرتشدد مظاہروں کے باعث حکومتِ پاکستان نے تحریک لبیک کو انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت کالعدم جماعت قرار دیا تھا۔

تحریک کے سربراہ مولانا سعد رضوی پہلے ہی پولیس کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف قتل، دہشت گردی، توڑ پھوڑ کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج ہے۔

پولیس اور ٹی ایل پی کے کارکن آمنے سامنے ہیں۔
پولیس اور ٹی ایل پی کے کارکن آمنے سامنے ہیں۔

'کالعدم ٹی ایل پی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے'

ٹی ایل پی کے احتجاج اور پولیس کی کارروائیوں پر وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اپنی رٹ قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔

اتوار کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا حکومت نے ٹی ایل پی کے منتظمین سے دو تین ماہ مذاکرات کیے لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

شیخ رشید کے مطابق کالعدم تنظیم نے پاکستان بھر میں 192 مقامات کو بند کیا تھا جن میں سے ایک مقام لاہور کے یتیم خانہ چوک کی مسجد ہے جہاں تحریک کا مرکز بھی ہے۔

بیس اپریل کو ٹی ایل پی کی جانب سے اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال سے متعلق سوال پر شیخ رشید نے کہا کہ 20 تاریخ کو کچھ نہیں ہو گا اور ملک بھر کی سڑکیں اور شاہراہیں کھلی رہیں گی۔

کالعدم ٹی ایل پی کا مطالبہ کیا ہے؟

تحریک لبیک نے فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر پاکستان سے فرانس کے سفیر کو 16 فروری تک بے دخل کرنے اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی فروری میں اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ایل پی کے مطالبات کو 20 اپریل کے بعد پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی۔

اس سے قبل ٹی ایل پی نے مذکورہ معاملے پر ماضی میں طے پانے والے ایک معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی جسے 11 جنوری کو طے پانے والے نئے معاہدے کے بعد ملتوی کر دیا گیا تھا۔

گیارہ جنوری کو ہونے والے معاہدے میں حکومت کی نمائندگی وفاقی وزیرِ مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کی تھی۔ ٹی ایل پی کی نمائندگی کرنے والوں میں غلام غوث، ڈاکٹر محمد شفیق، غلام عباس اور محمد عمیر شامل تھے۔

البتہ، حکومتِ پاکستان کا کہ مؤقف تھا کہ پارلیمنٹ میں قرارداد لانے سے متعلق ٹی ایل پی سے مذاکرات جاری تھے کہ پتا چلا کہ وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال دے چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG