رسائی کے لنکس

بھارت: جودھپور میں عید پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں تصادم،کئی علاقوں میں کرفیو نافذ


بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر جودھپور میں عیدگاہ کے قریب مذہبی پرچم لہرانے پر دو گروہوں میں تصادم ہوا , جس کے نتیجے میں چار پولیس اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہوگئے ۔
بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر جودھپور میں عیدگاہ کے قریب مذہبی پرچم لہرانے پر دو گروہوں میں تصادم ہوا , جس کے نتیجے میں چار پولیس اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہوگئے ۔

بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر جودھپور میں عیدگاہ کے قریب مذہبی پرچم لہرانے پر دو گروہوں میں تصادم ہوا , جس کے نتیجے میں چار پولیس اہل کاروں سمیت 16 افراد زخمی ہوگئے ۔ حکام نے دس تھانوں کے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔

انتظامیہ نے افواہوں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کردیں ہیں جب کہ کشیدہ صورتِ حال کے باعث منگل کو پولیس کی سیکیورٹی میں عید کی نماز کی ادائیگی کی گئی۔

واضح رہے کہ جودھپور کے جلوری گیٹ کے علاقے میں عید گاہ کے قریب ایک چوراہے پر ایک 'فریڈم فائٹر بال مکند بسا' کے مجسمے پر ہندو مذہب کا پرچم لگانے کی کوشش کی گئی تھی جس پر مسلمانوں نے اعتراض کیا تھا۔ جس کے بعد پیر کی رات گیارہ بجے دونوں گروہوں کے درمیان تصادم شروع ہوا۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل(لا اینڈ آرڈر) ہوا سنگھ گھوماریا نے میڈیا کو بتایا کہ عید گاہ کے قریب 'بھگوان پرشورام' کا جھنڈا لگانے کی کوشش کی گئی۔ جس پر مقامی مسلمانوں نے مخالفت کی اور انہوں نے عید کی مناسبت سے اپنا جھنڈا لگا دیا۔البتہ منگل کو عیدگاہ میں نمازِ عید کے پیشِ نظر پولیس کمشنر نے اس مقام پر بھیڑ نہیں لگنے دی۔

گھوماریا کے مطابق لوگوں کےمنتشر ہوجانے کے بعد اچانک وہاں کشیدگی ہوئی اور پتھراؤ ہونے لگا۔

بھارتی اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' کی رپورٹ کے مطابق پتھراؤ میں کم از کم 16 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں چار پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔ اخبار کے مطابق منگل کی صبح نماز عید کے بعد مسلمانوں اور پولیس میں بھی ٹکراؤ ہوا۔

ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایم ایل لاٹھر کے مطابق نماز عید کے بعد کچھ نوجوانوں نے امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ جس پر ہم نے ہلکی طاقت کا استعمال کرکے انہیں منتشر کر دیا۔ ان کے بقول نماز سے لوٹنے والوں میں سے کچھ افراد نے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا جس سے پولیس کی کچھ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

اخبار نے پولیس کے حوالے سے بتایا جلوری گیٹ چوراہےپرکچھ لوگوں نے اسلامی جھنڈا لگانے کی کوشش کی۔ جب کہ وہاں پہلے سے ہی بھگوان شورام کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ ان کے بقول کچھ لوگوں نے اسلامی پرچم لگانے کی مخالفت کی جس پر تصادم ہوا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ایک شخص اسلامی جھنڈا لگانے کی ویڈیو بنا رہا تھا جس پر کچھ لوگوں نے اس کی پٹائی کردی، جس پر تشدد پھوٹ پڑا اور دو نوں طرف سے پتھراؤ ہونے لگا۔ پولیس نے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل برسائے۔

دونوں گروہوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہونا افسوس ناک ہے: وزیرِاعلیٰ

راجستھان کےوزیرِ اعلیٰ اشوک گہلوت نے دونوں گروہوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ انتظامیہ کو ہر قیمت پر امن قائم رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ امن و امان قائم رکھیں۔ خیال رہے کہ جودھپور اشوک گہلوت کا اپنا ضلع ہے۔

وزیرِاعلیٰ اشوک گہلوت نے منگل کو اعلیٰ حکام کے ساتھ اجلاس میں صورتِ حال کا جائزہ لیا ، جس کے بعد جودھپور کے دس تھانوں کے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ نے ریاست کے چیف سیکریٹری (داخلہ)، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور نائب وزیر داخلہ راجندر سنگھ یادیو کو متاثرہ علاقے میں روانہ کیا ہے۔
ادھر مرکزی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 'فرقہ وارانہ' تصادم کو وزیرِاعلیٰ کی اقلیتوں کو مبینہ طور پر خوش کرنے کی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کرولی میں جب فساد ہوا تو کہا گیا تھا کہ وہاں جے شری رام کے نعرے لگائے گئے تھے۔لیکن یہاں کیا ہوا تھا۔
واضح رہے کہ راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے۔ کانگریس نے مبینہ طور پر مسلمانوں کی جانب سے ہندوؤں کے مذہبی جھنڈے کو ہٹانے اور اپنا جھنڈا لگانے کی مذمت کی ہے۔
ادھر ریاستِ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں اب بھی کرفیو نافذ ہے۔ اس علاقے میں گزشتہ ماہ مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کردیا گیا تھا۔اس علاقے میں مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں میں ہی عید کی نماز ادا کریں۔

بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات

واضح رہے کہ بھارت میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کم از کم پانچ ریاستوں دہلی، گجرات ، مدھیہ پردیش، جھار کھنڈ اور مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔

راجستھان کے کرولی میں فرقہ وارانہ فساد کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو تنقید کا سامنا ہے۔ان پر حالات پر قابو پانے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

دہلی کے جہانگیرپوری میں ہندوؤں کے ایک مذہبی جلوس کے دوران ایک مسجد کے سامنے اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے تھے اور مسجد پر زعفرانی پرچم لہرانے کی کوشش کی گئی تھی جس پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

بعد ازاں میونسپل کارپوریشن نے تجاوزات ہٹانے کے نام پر مبینہ طور پر مسلمانوں کی متعدد دکانیں منہدم کر دیں۔ اس کارروائی میں کئی ہندوؤں کی دکانیں بھی گرائی گئیں تھیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں بھارت کے ایک نیوز چینل کے مالک اور متنازع صحافی سریش چوانکے ایک جلسے میں موجود لوگوں کو بھارت کو'ہندو ریاست' بنانے کے لیے حلف دلاتے ہیں۔ اس دوران ہریانہ میں حکمراں جماعت بی جے پی کے رکن اسمبلی اسیم گوئل بھی بھارت کو 'ہندو ریاست' بنانے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں۔

حلف دلانے کے دوران یہ جملہ ادا کیا گیا کہ'' ہم بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے قربانی دیں گے اور ضرورت پڑی تو قربانیاں لیں گے بھی۔''

اس سے قبل سریش چوانکے نے دہلی میں ایک تقریب کے دوران لوگوں کو ہندو اسٹیٹ بنانے کے لیے حلف دلایا تھا۔ ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔

اعلیٰ افسران کا نریندر مودی کے نام خط


ادھر ملک کے 108 سابق آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط لکھ کر ان سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

انہوں نے خط میں وزیر اعظم سے اپنی خاموشی توڑنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ وہ نفرت کی سیاست کو بند کرائیں۔

امریکہ میں مقیم متعدد ہندو مذہبی رہنماؤں، مندروں اور آشرموں کے ذمہ داروں اور ہندو تنظیموں کی جانب سے ایک بیان میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ تشدد کی مذمت کی گئی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا ہے۔

تنظیموں نے دنیا بھر کے ہندوؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی خاموشی توڑیں۔ ان کے بقول ہندوؤں کو بہت پہلے اس کے خلاف بولنا چاہیے تھا۔

بھارت کے متعدد ہندو مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں نے بھی اس بیان کی حمایت کی ہے اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مبینہ تشدد کو روکنے کی اپیل کی ہے۔

مذہبی آزادی سے متعلق امریکہ کے کمیشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اظہار تشویش کیا ہے۔ امریکی کمیشن کا کہنا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔ کمیشن نے بھارت کو تشویش والے ملکوں کے زمرے میں ڈالنے کی سفارش کی ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ امریکہ اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

امریکہ کے اس بیان پر بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں بھی امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتَ حال پر تشویش ہے۔

بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف روزی کے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ نئی دہلی امریکی کمیشن کی رپورٹ کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے مسترد کرچکا ہے۔

علاوہ ازیں یورپی یونین کے ایک چھ رکنی وفد نے بھی بھارت کا دورہ کیا تھا اور انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا تھا جس پراقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ 2014 کے بعد نریندر مودی کی حکومت کے دوران کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔

ان کے بقول اِکا دکا اور چھوٹے موٹے واقعات ہوئے ہیں لیکن کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم مودی کو بدنام کرنے کے لیے جرائم کے واقعات کو بھی فرقہ وارانہ واقعات بتانے لگتی ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG