رسائی کے لنکس

ساحلی صفائی پر اقوام متحدہ کا چیمپیئن آف دی ارتھ ایوارڈ جیتنے والے افروز شاہ


دنیا بھر کے سمندر آلودگی کا شکار ہیں، خاص طور پر پلاسٹک کے کچرے نے سمندری ماحول کو آلودہ کر کے سمندری حیات کی بقا کے مسائل پیدا کر دیے ہیں جب کہ اس سے ساحلی علاقوں میں رہنے والے صحت کی پریشانیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

بھارت کے اہم تجارتی شہر ممبئی میں 18 ساحلی علاقے ہیں جو سمندری اور خشکی کے کچرے سے بری طرح متاثر ہیں۔ ایک بھارتی شہری اور وکیل افروز شاہ نے ان ساحلوں کو کچرے سے پاک کرنے کی مہم شروع کی ہے۔

انہوں نے اس مہم میں ہزاروں رضاکاروں کی مدد سے ممبئی کے وارسووا ساحل سے گزشتہ تین برسوں میں 2 کروڑ کلو گرام کچرا صاف کر دیا ہے اور اب وہ ممبئی کے دوسرے ساحلی علاقوں میں اپنی صفائی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ممبئی کے وارسووا ساحل پر تین برس پہلے ہر جانب کوڑے اور کچرے کے ڈھیر نظر آتے تھے۔
ممبئی کے وارسووا ساحل پر تین برس پہلے ہر جانب کوڑے اور کچرے کے ڈھیر نظر آتے تھے۔

وارسووا ممبئی کے شمال میں تین کلو میٹر پر محیط ایک ساحلی علاقہ ہے جہاں بڑی تعداد میں غیرقانونی کچی آبادیاں موجود ہیں۔ صفائی اور نکاسی کا انتظام نہ ہونے کے بعد لوگ اپنا کوڑاکرکٹ ساحل پر پھینک دیتے تھے جس سے یہ علاقہ شدید آلودگی کا شکار ہو چکا تھا۔ کوڑے کرکٹ کے ان ڈھیروں میں پلاسٹک کا وہ کچرا بھی شامل ہو گیا تھا جسے سمندر کی لہریں اپنے ساتھ بہاتے ہوئے وارسووا کے ساحل تک پہنچا رہی تھیں۔

سن 2015 کا اس ساحل کا منظرنامہ کچھ اس طرح ہے کہ وہاں جگہ جگہ کوڑے اور کچرے کے پانچ پانچ فٹ تک تک اونچے ڈھیر نظر آتے تھے جنہیں صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی حکومتی یا فلاحی ادارہ اس پہلو پر سوچ رہا تھا کہ غیر قانونی بستیوں کے مکینیوں میں اپنی اور اپنے آس پاس کی صفائی کا شعور اجاگر کیا جائے۔

وارسووا ساحل کی صفائی میں حصہ لینے والے رضاکار
وارسووا ساحل کی صفائی میں حصہ لینے والے رضاکار

وارسووا ساحل پر اپنا پچپن بتانے والا ایک نوجوان افروز شاہ، جب اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک وکیل بن کر اپنے گھر رہنے کے لیے لوٹا تو اپنے بچپن کے دور کے خوبصورت ساحل کو اس بری حالت میں دیکھ کر اس کا دل تڑپ اٹھا۔

وہ اپنے ماضی کے ساحل کو لوٹانا چاہتا تھا، لیکن اس کے لیے بہت محنت اور سرمائے کی ضرورت تھی مگر کوئی ادارہ اس کی مدد کے لیے تیار نہیں تھا۔ لیکن افروز شاہ مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے دوستوں اور بستی والوں کی مدد سے ساحل کی صفائی کا عزم کیا۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ کہانی سناتے ہوئے افروز شاہ نے بتایا کہ چھوٹے پیمانے پر شروع ہونے والی صفائی کی اس مہم میں سب سے پہلے اس کے ایک بزرگ پڑوسی ہربنش ماتھور شامل ہوئے اور ان دونوں نے روزانہ ساحل سے پلاسٹک کا تھوڑا تھوڑا کچرا اپنے ہاتھوں سے سمیٹنا شروع کیا۔

ساحلی صفائی کی مہم میں حصہ لینے والے رضاکار
ساحلی صفائی کی مہم میں حصہ لینے والے رضاکار

انہیں ساحل کی صفائی کرتے دیکھ کر آس پاس کے دوسرے لوگوں میں بھی جذبہ بیدار ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو افراد سے شروع ہونے والی اس مہم ہزاروں افراد کی ایک رضاکار ٹیم کی شکل میں بدل گئی۔

افروز نے بتایا کہ ساحل کے اردگرد کے لوگ، اسکولوں کے طالب علم، ممبئی کے ہزاروں رضاکار وارسووا کی صفائی کی اس مہم میں ان کے ساتھ شریک ہو گئے اور صرف تین سال کی مدت میں میں ان سب نے مل کر وارسووا سے 2 کروڑ کلو گرام پلاسٹک کا کچرا صاف کر دیا۔

افروز بتاتے ہیں کہ کچرا اٹھنے کے بعد وارسووا ایک بار پھر اسی طرح صاف ستھرا اور خوبصورت دکھائی دینے لگا جس طرح وہ اپنے بچن میں اسے دیکھا کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کامیابی نے ان کا حوصلہ مزید بڑھا دیا اور انہوں نے ممبئی کے دوسرے ساحلی علاقوں کی صفائی اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے تربتی مہم شروع کی۔

افروز نے بتایا کہ دو افراد نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، اب ان کے قافلے میں ہزاروں لوگ شامل ہو چکے ہیں۔ جنہوں نے صرف آٹھ مہینوں میں ساحلی بستیوں کے گرد بکھرے ہوئی پلاسٹک کے کچرے کی پانچ لاکھ سے زیادہ چیزیں اٹھا کر انہیں سمندر میں جانے سے روک دیا ہے۔

افروز شاہ نے بتایا کہ انہوں نے لوگوں میں ری سائیکلنگ کا شعور پیدا کر دیا ہے۔ اب وہ ساحل پر بکھری ہوئی پلاسٹک کی ناکارہ اشیا اور دوسری چیزیں اکھٹی کر کے فروخت کرتے ہیں جس سے ان کی اضافی آمدنی کا ذریعہ پیدا ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ساحلی علاقوں کی صفائی کے لئے انہوں نے کوئی ادارہ نہیں بنایا، نہ ہی ان کی کوئی این جی او ہے، ان کے پاس سرمایہ بھی نہیں ہے، بس لوگ خود ہی رضاکارانہ طور پر اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ امیتابھ بچن نے اس مہم کے لیے انہیں ایک ٹریکٹر اور ایک ایکسکاویٹر مشین دی ہے۔ اسی طرح کچھ اور بڑی بڑی کمپنیاں بھی اس مشن میں شامل ہو رہی ہیں اور صفائی کے لیے مشینوں کے عطیات دے رہی ہیں۔

افروز شاہ نے بتایا کہ 2016 میں اقوام متحدہ نے ان کی مہم کو ساحلی صفائی کی دنیا کی سب سے بڑی مہم قرار دتھا اور انہیں چیمپئین آف دی ارتھ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔

رضاکاروں کا ایک گروپ وارسووا ساحل کی صفائی میں حصہ لے رہا ہے
رضاکاروں کا ایک گروپ وارسووا ساحل کی صفائی میں حصہ لے رہا ہے

افروز شاہ کہتے ہیں کہ وارسووا کے صاف ستھرے ساحل پر ایک بار پھر سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کھیلتے کودتے دیکھ کر انہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے بچپن کا دور واپس لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

افروز شاہ نےمزید بتایا کہ وارسووا کی صفائی کے بعد اب انہوں نے ممبئی کے ایک اور ساحل ’دانہ پانی‘ سے کچرا اٹھانے کا کام شروع کیا ہے اور مقامی تاجر اور لوگ ان کے ساتھ مل کر اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دانہ پانی‘ ایک چھوٹا ساحل ہے۔ چھ سے سات مہینوں میں اس کی صفائی کا کام مکمل ہو جائے گا۔

افروز شاہ کی رضاکارانہ مہم صرف ساحلی علاقوں کی صفائی تک ہی محدود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ممبئی کے ساتھ بہنے والی 18 کلومیٹر لمبی ’میٹھی ندی‘ کی صفائی کا کام بھی شروع کر دیا ہے اور تین ماہ کے عرصے میں اس کا تین سو میٹر کا حصہ صاف کر چکے ہیں۔ یہ ندی جہار جھیل سے نکل کر سمندر میں گرتی ہے۔

افروز شاہ نے بتایا کہ ’میٹھی ندی‘ کے ارد گرد کے علاقے میں میلوں تک پھیلی ہوئی جھونپڑیاں ہیں جن میں اندازاً 40 سے 50 لاکھ تک لوگ رہتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے مشن میں شامل کر رہے ہیں اور انہیں ساحلو ں کی صفائی، سمندر کو آلودگی سے بچانے اور سمندری حیات سے محبت کرنا سکھا رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG