ہر نسل میں نوجوانوں نے سماجی تبدیلی کی تحریکیں چلائی ہیں۔ چاہے وہ سیاہ فام نوجوان ہوں، جنہوں نے 60 کے عشرے میں اپنے حقوق کے لئے تحریک چلائی تھی یا وہ 80 کے عشرے کے کالجوں کے احتجاج ہوں جن کی وجہ سے ساوتھ افریقہ میں نسل پرستی کے قانون خاتم ہوا۔
کچھ احتجاج کامیاب ہوئے مگر کچھ نہ ہو سکے، جیسا کہ جمہوریت کے لئے 1989 میں بیجنگ میں ہونے والے احتجاج۔
پچھلے سال سے شروع ہونے والے احتجاج سب سے نئے ہیں جن میں طالب علم ہر جمعے کو اپنی کلاسیں چھوڑ کر احتجاج کرتے ہیں تاکہ دنیا کے لیڈر موسمیاتی تبدیلی کا عمل روکنے کے لیے فیصلے کر سکیں۔
15 مارچ کو عالمی یوتھ کلائمٹ سٹرائک میں سو ممالک کے 15 لاکھ سے زیادہ طالب علموں نے حصہ لیا۔
لگتا ہے نوجوان اپنی آواز اٹھا رہے ہیں
جارج میسن یونیورسٹی ورجینیا کی ریسرچر پیٹریکا مالڈن نے کہا کہ ’’ہمیشہ نوجوان ہی جاری روایات کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’آج کی ادھیڑ عمر نسل جب جوان تھی تو انہوں نے بھی روایات کے خلاف آواز اٹھائی اور انہیں کامیابی ملی۔ اب وہ اس سسٹم کا حصہ ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جیس طرح ہم رہتے ہیں اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے، تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ رابطے کے ذرائع تبدیل ہو گئے ہیں۔ آمدن کے ذرائع تبدیل ہوئے ہیں۔ مگر نظام تبدیل نہیں ہوا ہے اس لئے نوجوان آگے بڑھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ ویسی دنیا نہیں ہے۔‘‘
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے الیسا ویسمین نے کہا کہ ’’اب وقت ہے کہ ہم محض دیکھنا بند کر دیں۔ اب ہمارا ردعمل دینے کا وقت آ گیا ہے۔ ہم وہ نسل ہیں جو عالمی طور پر موسمیاتی تبدیلی کا عمل روکنے کی قیادت کرے گی۔‘‘
احتجاج میں شریک ہونے والے کیون کرانڈل نے کہا کہ ’’چونکہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اب ورک فورس کا حصہ بننا ہے، پبلک آفس سنبھالنے ہیں، اس لئے یہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ جیسے کہ نعرہ ہے کہ یہ ہمارا مستقبل ہے۔‘‘
مالڈن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ نوجوان موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے حوالے سے بہت پرجوش ہیں۔
’’یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے نوجوان بڑوں سے زیادہ سمجھتے ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خدشات رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا مختلف براعظموں کے افراد کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن رہا ہے۔‘‘
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نظریاتی نوجوان اپنی تحریک کے بارے میں بہت سنجیدہ ہوتے ہیں۔
ایما او ڈریسکول نے کہا کہ ’’یہ ہمارا کام ہے۔ ہمیں اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ اگرچہ کہ ہماری عمر زیادہ نہیں ہے اور ہمارے پاس زیادہ تجربہ نہیں ہے مگر پھر بھی ہم ان مسائل کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔‘‘
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ہونے احتجاج پچھلے برس کے ’’مارچ فار آور لائیوز‘‘ یعنی امریکہ میں ہتھیاروں کے قوانین کے خلاف ہونے والے احتجاج سے متاثر ہے۔
یہ احتجاج فلوریڈا میں پارک لینڈ کے علاقے میں ایک ہائی سکول میں فائرنگ کے واقعے کے بعد شروع ہوئے تھے جس میں 17 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مالڈن کا کہنا تھا کہ پارک لینڈ کے طلبا اپنے مطالبات میں بہت صاف گو تھے۔
’’انہوں نے جس طرح سے منظم تحریک چلائی وہ اپنے آپ میں ایک مثال تھی کہ کیسے کام کیا جاتا ہے۔‘‘
کیا یہ تحریک صرف امریکہ تک ہی محدود رہے گی یا دوسرے ممالک میں بھی اس کی جڑیں ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مگر ان کے حامی موجود ہیں۔
ان میں سے نئی منتخب ہونے والی کانگریس وومن الہان عمر ہیں جنہوں نے واشنگٹن میں ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ’’مستقبل کے لئے کھڑے ہونے پر‘‘ شکریہ ادا کیا۔
سابقہ خارجہ سیکرٹری اور 2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن اور اداکار لیونارڈو ڈیکیپریو نے بھی اس مارچ کی حمایت کی۔
سوال یہ ہے کہ یہ طلبا، جن میں سے اکثر ووٹ دینے کی عمر کو بھی نہیں پہنچے ہیں عالمی سیاست پر کیا اثر چھوڑ سکتے ہیں۔