امریکہ کی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے گزشتہ ماہ لیبیا میں اپنے قونصل خانے پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے کی یہ کہہ کر ذمہ داری قبول کی ہے کہ دنیا بھر میں امریکی محکمہ خارجہ کے ملازمین کی سلامتی کا خیال رکھنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔
پیرو کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں کلنٹن کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن کو سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے حفاظت سے متعلق لیے گئے ہر ایک فیصلے کا علم نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ لیبیا کے شہر بن غازی میں ہونے والے حملے جیسے واقعات میں فوری طور پر صورتحال واضح نہیں ہوتی۔
بن غازی میں 11 ستمبر کو اسلام مخالف فلم کے خلاف احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے امریکی قونصل خانے پر دھاوا بول دیا۔ اس حملے میں امریکی سفیر اپنے تین دیگر ساتھی اہلکاروں سمیت ہلاک ہوئے تھے۔
یہ حملہ اور اس پر اوباما انتظامیہ کا ردعمل صدارتی انتخابی مہم میں ایک اہم معاملہ بن چکا ہے۔ ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی صدر اوباما کو بن غازی میں امریکی قونصل خانے کو اضافی سکیورٹی فراہم نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
وزیر خارجہ کلنٹن نے کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ اس حملے کو سیاسی ’’الزام تراشی‘‘ کا حصہ بنایا جائے۔
قونصل خانے پر حملے پر اوباما انتظامیہ نے پہلے کہا کہ یہ متنازع فلم پر احتجاج کے بعد ہوا لیکن بعد میں اسے دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دیا۔
سینیٹر جان میک کین اور دیگر دو ریپبلکن سینیٹروں نے ایک بیان میں ہلری کلنٹن کے ردعمل کو ’’قابل تحسین اشارہ‘‘ قرار دیا لیکن ان کے بقول یہ ذمہ داری بہر صورت صدر پر عائد ہوتی ہے۔
نائب صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے نائب صدرات کے عہدے کے لیے ریبلکین امیدوار پال ریان کے ساتھ ایک مباحثے میں کہا تھا کہ انھیں اور مسٹر اوباما کو قونصل خانے کے لیے مزید سکیورٹی کی درخواستوں کا علم نہیں تھا۔
کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش کیے گئے بیان حلفی سے معلوم ہوا ہے کہ محکمہ خارجہ نے اس جگہ مزید سکیورٹی فراہم کرنے کی متعدد درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔ محکمے کے ایک عہدیدار نے قانون سازوں کو بتایا کہ حملے کے وقت بن غازی میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد درست تھی۔
پیرو کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں کلنٹن کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن کو سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے حفاظت سے متعلق لیے گئے ہر ایک فیصلے کا علم نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ لیبیا کے شہر بن غازی میں ہونے والے حملے جیسے واقعات میں فوری طور پر صورتحال واضح نہیں ہوتی۔
بن غازی میں 11 ستمبر کو اسلام مخالف فلم کے خلاف احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے امریکی قونصل خانے پر دھاوا بول دیا۔ اس حملے میں امریکی سفیر اپنے تین دیگر ساتھی اہلکاروں سمیت ہلاک ہوئے تھے۔
یہ حملہ اور اس پر اوباما انتظامیہ کا ردعمل صدارتی انتخابی مہم میں ایک اہم معاملہ بن چکا ہے۔ ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی صدر اوباما کو بن غازی میں امریکی قونصل خانے کو اضافی سکیورٹی فراہم نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
وزیر خارجہ کلنٹن نے کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ اس حملے کو سیاسی ’’الزام تراشی‘‘ کا حصہ بنایا جائے۔
قونصل خانے پر حملے پر اوباما انتظامیہ نے پہلے کہا کہ یہ متنازع فلم پر احتجاج کے بعد ہوا لیکن بعد میں اسے دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دیا۔
سینیٹر جان میک کین اور دیگر دو ریپبلکن سینیٹروں نے ایک بیان میں ہلری کلنٹن کے ردعمل کو ’’قابل تحسین اشارہ‘‘ قرار دیا لیکن ان کے بقول یہ ذمہ داری بہر صورت صدر پر عائد ہوتی ہے۔
نائب صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے نائب صدرات کے عہدے کے لیے ریبلکین امیدوار پال ریان کے ساتھ ایک مباحثے میں کہا تھا کہ انھیں اور مسٹر اوباما کو قونصل خانے کے لیے مزید سکیورٹی کی درخواستوں کا علم نہیں تھا۔
کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش کیے گئے بیان حلفی سے معلوم ہوا ہے کہ محکمہ خارجہ نے اس جگہ مزید سکیورٹی فراہم کرنے کی متعدد درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔ محکمے کے ایک عہدیدار نے قانون سازوں کو بتایا کہ حملے کے وقت بن غازی میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد درست تھی۔