امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گرد تنظیم داعش کو شکست دینے کے لیے اپنی کارروائیوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
بدھ کو پیرس میں مذاکرات کے بعد اتحاد نے کہا کہ داعش کے خلاف کام کرنے والے دو درجن ممالک کا برسلز میں ایک اجلاس منعقد کیا جائے ۔
فرانس، آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، برطانیہ اور امریکہ کے وزرائے دفاع نے پیرس میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف مزید جارحانہ کارروائیوں پر اتفاق کیا۔
وزرا نے عراق اور شام کی مدد اور دو بڑے شہروں موصل اور رقہ کو داعش کے قبضے سے چھڑانے پر بات چیت کی۔ یہ بات چیت اس دہشت گرد گروپ کے اثرورسوخ کو دنیا بھر میں پھیلنے سے روکنے کے لیے امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کی وسیع تر حکمت عملی کا ایک حصہ تھی۔
’’آج ہمارے مذاکرات کا ایک اہم حصہ کامیابی کے لیے درکار تمام صلاحیتوں کے بارے میں بات چیت تھا، ناصرف فوجی بلکہ غیر فوجی بھی جس میں تعمیر نو کے کام کی اقتصادی سرگرمی، معلومات جو صرف انسداد دہشت گردی کے متعلق ہی نہیں۔۔۔ جب آپ ان تمام صلاحیتوں کا جائزہ لیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح مختلف فریقین مختلف قسم کی معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘
امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کا کہنا تھا کہ تین ہفتے بعد برسلز میں ہونے والے اجلاس میں عراق سمیت 26 ممالک شریک ہوں گے۔ اس اجلاس کا مقصد مزید ملکوں کو جنگ میں اپنا کردار بڑھانے پر آمادہ کرنا ہے۔
’’ہر ملک کو جنگ میں اپنا کردار بڑھانے کی تجاویز تیار کر کے اجلاس میں شریک ہونا چاہیئے۔ اور میں اس اتحاد کے موجودہ اور متوقع ارکان سے بات کرنے اور انہیں چیلنج کرنے میں نہیں ہچکچاؤں گا۔‘‘
کارٹر کے ساتھ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے فرانس کے وزیر دفاع یاں ایو لدریاں نے کہا کہ داعش کے خلاف جاری فضائی کارروائیوں نے اس شدت پسند گروہ کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف اتحاد کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں اور اس مہم کو دپرپا بنانے کے لیے عالمی برداری کو داعش کے خلاف لڑنے والے مقامی گروہوں کی حمایت میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ وہ علاقوں پر قبضہ کر سکیں اور ان طویل عرصہ تک قبضہ برقرار رکھ سکیں۔
امریکہ کی داعش کے خلاف پالیسی کے ناقدین جن میں کئی امریکی قانون ساز بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں کمزور اور غیر واضح رہی ہے۔
کانگریس کے کچھ ارکان نے عراق میں فوج بھیجنے کی تجویز پیش کی ہے جس کے بارے میں صدر اوباما کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔